قربانی، یعنی اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ... مفتی مشتاق تجاروی

اگر قربانی میں نفسانی خواہشات یا نام و نمود کی خواہش شامل ہو جائے تو یہ بہت خطرناک مرحلہ بن جاتا ہے، یہاں اس کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ قربانی وبال نہ بن جائے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر یو این آئی</p></div>

تصویر یو این آئی

user

محمد مشتاق تجاروی

عیدالاضحیٰ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جانے والی عید ہے۔ دراصل اللہ رب العزت نے اپنے ایک بندے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کا امتحان لیا اور ان کو خواب میں حکم دیا کہ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کر دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہو گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ایک مینڈھا بھیج کر اس کی قربانی کروائی اور اس کو ’عظیم قربانی‘ قرار دیا۔ گویا ابراہیم علیہ السلام امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد سے قربانی کی یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ یہ دراصل اس عظیم قربانی کی یاد ہے جو ہر سال منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر بیت اللہ کا حج بھی کیا جاتا ہے۔ حج اور عیدالاضحیٰ دونوں سنت ابراہیمی ہیں۔ حج بھی اسلام کی ایک اہم عبادت ہے۔

دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تو اللہ نے ان کو دنیا کی امامت کا منصب عطا کیا اور اپنے گھر یعنی کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ جب تعمیر مکمل ہو گئی تو حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں کو اس کعبہ کی زیارت اور حج کے لیے بلاؤ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز دی اور اللہ رب العزت نے اس آواز کو زمان و مکان کے حدود و فاصلوں سے ماورا بنا دیا۔ آج چار ہزار سال سے بھی زیادہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن آج بھی لوگ دنیا کے کونے کونے سے اسی آواز کا جواب دیتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں کہ ’لبیک اللہم لبیک‘، میں حاضر ہوں اے اللہ، میں حاضر ہوں۔ اپنی حاضری کا اعلان کرتے ہوئے لوگ یہاں آتے ہیں اور ان اعمال کو ہی انجام دیتے ہیں جو حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام نے اس مقام پر انجام دیے تھے۔ حضرت ہاجرہ نے اپنے شیر خوار بیٹے کو پانی پلانے کے لیے پانی کی تلاش میں پہاڑوں کے درمیان چکر لگائے تھے۔ بچے کو دھوپ نہ لگے اس لیے اس کو ایک چٹان کی چھاؤں میں لٹا دیا اور بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے پہاڑوں کے درمیان دوڑ دوڑ کر چکر لگائے۔ حضرت ہاجرہ نے یہ چکر اپنے بیٹے کے پانی کی تلاش میں لگائے تھے۔ پانی تو بچے کے قدموں تلے مل گیا، لیکن پانی کی تلاش کی یہ کوشش مالک کائنات کو اتنی بھائی کہ اس کو تلاش حق کا استعارہ بنا دیا۔ سارے حاجی ایام حج میں اور سارے عمرہ کرنے والے پورے سال میں انہی قدموں کے آثار پر دوڑ لگاتے ہیں۔ اب نہ پہاڑ ہے، اور نہ ہی پانی کی تلاش ہے۔ اب تو یہ حق کی تلاش ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اولاد کی خبر گیری کرنا دنیاداری ہے اور سارے معاشرے سے کٹ اللہ کی عبادت کرنا دینداری ہے۔ لیکن یہ غلط ہے۔ حضرت ہاجرہ نے اپنے بیٹے کے لیے پانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے۔ مالک الملک نے اس کو عبادت قرار دے دیا اور رہتی دنیا تک وہ اسلام کی اہم عبادت میں شامل ہو گئی۔


اولاد کے لیے ہر شخص کی محبت اور تڑپ ساری دنیا کے لیے عبادت نہیں بنائی جا سکتی، لیکن اس شخص کے لیے تو یہ عبادت ہے جو یہ دوڑ دھوپ کر رہا ہے، اور اس بات کی دلیل حج و عمرہ کی عبادت ہے۔

بہرحال، عیدالاضحیٰ میں دو رکعت نماز کے علاوہ سب سے اہم عبادت قربانی ہے۔ قربانی کے ایام میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل قربانی ہی ہوتا ہے۔ قربانی ہر مالدار مسلمان پر واجب ہے۔ قربانی دراصل اس اظہار کا نام ہے کہ میں اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ اس جذبے اور اس نیت سے قربانی کرنی چاہیے۔ اگر قربانی میں نفسانی خواہشات یا نام و نمود کی خواہش شامل ہو جائے تو یہ بہت خطرناک مرحلہ بن جاتا ہے۔ یہاں اس کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ قربانی وبال نہ بن جائے۔ اس لیے ہر حال میں اپنی نیت کو خالص کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اللہ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقویٰ پہنچتا ہے اور اصل قربانی وہی ہے۔


قربانی کی عبادت کے سماجی فواجد بھی بے شمار ہیں۔ قربانی میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ یہ جانور عام طور پر دیہات کے رہنے والے کسان یا مزدور پالتے ہیں۔ سال بھر وہ ان جانوروں کے ساتھ محنت کرتے ہیں۔ قربانی کے موقع پر یہ جانور گراں قیمت پر فروخت ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے کسانوں اور مزدوروں کی یافت ہو جاتی ہے۔ چونکہ قربانی کے لیے بے عیب جانور ہونا ضروری ہے اور جانور کا اچھا اور خوبصورت ہونا پسندیدہ ہے، اس لیے قربانی کا جانور ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے۔ اس میں بھی کسانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔

قربانی کا ایک قائدہ یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانور کی کھال غریبوں کا حق سمجھی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے ان کی امداد ہو جاتی ہے اور ہمارے ملک میں تو قربانی کی کھالیں غریبوں کے ساتھ ساتھ مدرسوں میں دینے کا بھی رواج ہے۔ اس طرح تو تعلیم کے فروغ کے لیے بھی اس کا ایک پہلو نکل آتا ہے۔

قربانی سے متعلق مخصوص ہدایات یہ ہیں کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک اپنے دوستوں کے لیے اور ایک حصہ غریبوں کے لیے۔ بعض اپنا پورا حصہ بھی غریبوں کو دے دیتے ہیں۔ اس طرح قربانی کا ایک سماجی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس موقع پر غریب اور نادار لوگ بھی اس گوشت کو استعمال کرتے ہیں۔


قربانی، عیدالاضحیٰ اور حج کے بے شمار ضمنی فوائد ہیں۔ اصل مقصد تو سب کا یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔ وہ اللہ کا نیک بندہ بن جائے۔ وہ صرف اس کی بندگی کرے اور اس کی بندگی کی نیت کرے۔ اس کے اندر دکھاوا نہ ہو، اس کے اندر تقویٰ ہو، اس کے اندر اللہ کی طرف رجوع ہونے کا جذبہ ہو۔ اس کی زندگی خالص اللہ کے لیے ہو جائے۔ اس طرح وہ معاشرے کا ایک بہترین انسان بن جائے گا اور اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔

قربانی کی طرح حج بھی اسلام کی عالمگیریت کی علامت اور اسلام کے تصورات کا ایک عملی اظہار ہے۔ اس طرح عیدالاضحیٰ کی نماز ہر مقام اور ہر شہر میں شعائر اللہ کی عظمت اور لوگوں کی ایک دوسرے سے وابستگی کا مظہر ہے۔ غرض عیدالاضحیٰ اور حج کے بے شمار دینی اور سماجی فوائد ہیں۔ اگر ان پر غور کیا جائے اور ان کو سامنے رکھ کر یہ عبادات کی جائیں تو اس کے فوائد و ثمرات میں مزید اضافہ ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔