بابری مسجد شہادت کی 29ویں برسی، مظلومین کو ابھی بھی انصاف کا انتظار

ہندوستان میں پنپتی ’ہم اور وہ‘ کی نفسیات کو رام جنم بھومی کی تحریک نےمزید فروغ دیا ۔سری کرشنا کمیشن نے اڈوانی کی رتھ یاتراکو بھی مسجد کی شہادت کےلئے ذمہ دار ٹہرایا تھا۔

ایودھیا کی بابری مسجد / تصویر آئی اے این ایس
ایودھیا کی بابری مسجد / تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے شہراجودھیا میں29سال قبل اتوار 6دسمبر 1992کو تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا ، سپریم کورٹ نے9،نومبر 2019 کواجودھیامیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کی شہادت کو غیر قانونی فعل قراردیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا،لیکن حتمی فیصلہ میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کے کمیشن نے بھی مسجد میں 1949میں مورتیاں رکھنا اور 1992میں مسجد کی مسماری کو غیر قانونی قراردیتےہوئے بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کو مسجد کی مسماری کے لیے ذمہ دار قراردیاتھا۔

دراصل1992میں مسجد کی مسماری کے بعد ملک بھر میں تشددپھوٹ پڑا تھا ،لیکن ملک کے تجارتی مرکز عروس البلاد ممبئی میں بڑے پیمانے پر تشددپھوٹ پڑا تھا،شہر میں دسمبر 1992اور جنوری 1993 میں ہوئے دودورکے فسادات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے بمبئی ہائی کورٹ کے سٹنگ جج جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جنہوں نے پانچ سال بعد ایک منصفانہ رپورٹ پیش کی تھی ،کمیشن کی سفارشات کے باوجود قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔


جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں بابری مسجد کی شہادت اور رام جنم بھومی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کو ہی بنیاد قراردیا تھا،انہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ 1949میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے اور مسجد کی شہادت کو غیرقانونی قراردینے کو ایک تاریخی فیصلہ بتایا ہے۔

اس کمیشن کی کارروائی کی پہلے دن سے رپورٹنگ کرنے والے اور رپورٹ کے اردومترجم معروف صحافی جاویدجمال الدین نے کہاکہ سری کرشناکمیشن نے واضح کردیا تھا کہ 1980کے عشرہ میں رام مندر کی تحریک شروع کی گئی اورایک بار پھر ہندووادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں،تنظیموں)نے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے تھے۔


جاوید جمال الدین نے مزید کہاکہ رپورٹ کے مطابق اس تنازعہ نے اس وقت سنگین ر خ اختیار کرلیا ،جب عدلیہ کی جانب سے مقدمہ میں کافی تاخیر ہوگئی اور سیاسی مفاد کے لیے اس معاملہ کو ایک نیار خ80کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیا اور اس کے سربراہ ایل کے اڈوانی نے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ پرہندوﺅں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے رتھ یاترا نکالی اور اس دوران جگہ جگہ پرفسادات ہوئے تھے۔آخر انہیں بہار میں گرفتار کیاگیاتھا،لیکن تب تک رام مندر کی مہم تیزہوچکی تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ جسٹس سری کرشنا نے رپورٹ میں تاریخی حوالے پیش کرتے ہوئے کہاکہ ملک سے برطانوی سامراج کو باہر نکالنے کے لیے ہندوﺅں اور مسلمانوں نے متحد ہوکر آپسی ملنساری کے ساتھ جدوجہد کی تھی۔اس اتحاد واتفاق کو محمدعلی جناح کے ”دوقومی نظریہ “ نے تباہ وبربادکردیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی طورپرملک کی تقسیم ہوگئی اور سرحد کے دونوں جانب لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دیگر فرقے کی اکثریت اور اثرورسوخ رکھنے والے علاقوںمیں رہائش پذیر تھے۔انہوں نے ملک کی آزادی اور اس آئین کو تسلیم کرلیا تھا ،جس نے اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ رعایتیں بھی دی تھیں۔ ایک وقفہ کے ساتھ اقلیتی فرقہ کو دیئے جانے والے خصوصی اختیارات نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر کرنا شروع کیا۔ہندووں میں یہ خوف پایا جانے لگا کہ جلد ہی وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سوچ نے صورت حال کو کافی بگاڑدیا اور ”ہم اور وہ “ کی نفسیات پنپنے لگی۔اس کا سیاسی فائدہ مفاد پرستوں نے اٹھایا اور ہندوﺅں کے ایک طبقہ نے متعدد مساجد کو آزاد کرانے کے لیے مہم شروع کردی ،جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مسلم دورحکومت میں انہیں مندر سے ہی مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا ،اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی تھی اور 1949سے پھر ایک بارہندووادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں، تنظیموں)نے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے ہیں۔


جاویدجمال الدین نے مزید کہا کہ کمیشن نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان تحریکوں کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا تھا جبکہ تحریک کے رہنماءاشتعال انگیزی سے باز نہیں آرہے تھے اور اسی وجہ سےدونوں فرقوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئیں،جس کا ہندوستان کی ہم آہنگی اور بھائی چارہ پر کافی بُرا اثر ہوا ۔ان زخموں کو بھرنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہوگا۔معروف صحافی کا کہنا ہے کہ” 6دسمبر 1992کے بعد میرے جیسے ہزاروں افراد عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے ،لیکن رپورٹ کے منظرعام آنے پر اس ملک کے آئین ،سیکولرزم اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہوا ہے ۔لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں ،ان میں سے صرف محکمہ پولیس کو بہتر کرنے اور جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا،مگر قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور سیکڑوں متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔جوکہ فسادیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے ظلم وستم کا شکار بنے تھے۔ایسے افراد کی طویل فہرست ہے۔اور یہ لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Dec 2021, 7:13 AM