پیگاسس پر حکومت و عدالت خاموش، کمیٹی کی رپورٹ کا بھی پتہ نہیں، یہ ہے ’مضبوط حکومت‘ کی قیمت... آکار پٹیل

مدلل بات یہ ہوتی کہ عدالت حکومت کو حکم عدولی کا ذمہ دار ٹھہراتی، لیکن اس نے حکومت کی یہ بات مان لی کہ وہ کمیٹی بنا دے گی جو پتہ لگائے گی کہ پیگاسس کا استعمال کر ہندوستانیوں کی جاسوسی ہوئی یا نہیں۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

آکار پٹیل

گزشتہ سال جولائی میں سامنے آیا تھا کہ حکومت ہند فوجی سطح کے ایک سافٹ ویئر کا استعمال کر اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ جن لوگوں کی جاسوسی ہو رہی تھی، ان میں صحافی، اپوزیشن لیڈر اور جنسی استحصال کا شکار ہو چکے لوگ تھے۔ یہ انکشاف عالمی حقوق انسانی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل (میں اسی گروپ کا حصہ ہوں) کے ذریعہ کیے گئے ایک ٹیکنیکل ریسرچ اور ویریفکیشن کے بعد ہوا تھا۔

ہندوستان تنہا ایسا ملک نہیں ہے جس نے پیگاسس نام کے اس سافٹ ویئر کو استعمال کیا تھا۔ دراصل کئی ملک اسرائیل کی ایک کمپنی کے ذریعہ تیار اس سافٹ ویئر کا استعمال کر رہے تھے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اس سافٹ ویئر کو صرف سرکاروں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ پیگاسس کے ذریعہ آئی فون کو متاثر کر دور بیٹھ کر بھی اس میں سے ضرورت کی ساری جانکاریاں حاصل کی جا سکتی ہیں، اور فون استعمال کرنے والے کو اس کی خبر تک نہیں لگے گی۔ پیگاسس ایک بار فون میں آ گیا تو پھر اس سافٹ ویئر کے ذریعہ ہیکر کے پاس اس کا پورا کنٹرول ہوتا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ امریکی سفیر بھی اس کے نشانے پر رہے ہیں تو امریکی حکومت نے پیگاسس تیار کرنے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کو بلیک لسٹ کر دیا۔

اس سے این ایس او کو فکر ہوئی کہ کہیں برطانیہ میں بھی اسے بلیک لسٹ نہ کر دیا جائے۔ این ایس او گروپ نے گزشتہ سال اکتوبر میں ایسا انتظام کر دیا کہ 44+ (برطانیہ کا بین الاقوامی کوڈ) سے شروع ہونے والا کوئی بھی نمبر ہیک نہ ہو سکے۔ اسی طرح اکتوبر میں ہی این ایس او گروپ کے افسر فرانس گئے اور بھروسہ دلایا کہ کسی بھی فرانسیسی کی اب کوئی جاسوسی پیگاسس کے ذریعہ نہیں ہوگی۔ ایسا تب کیا گیا جب فرانسیسی خفیہ ایجنسی نے تصدیق کی کہ اس سافٹ ویئر کے ذریعہ ایک غیر ملکی حکومت اس کے عام شہریوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔


تو سوال ہے کہ اس معامے میں ہندوستان کا اب تک کیا رخ رہا ہے؟

پہلا رد عمل تو ہندوستان کی طرف سے یہ رہا کہ اس انکشاف کو ہی خارج کر دیا گیا۔ وزراء کی طرف سے کہلوایا گیا کہ چونکہ یہ ریسرچ اور انکشاف ایمنسٹی نے کیا ہے، اس لیے یہ جھوٹا ہے۔ اس کے بعد کہا گیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خود ہی اس دعوے کو واپس لے لیا ہے (حالانکہ یہ بات جھوٹ ہے)۔ پارلیمنٹ میں حکومت نے کہا کہ کسی پر بھی غلط طریقے سے جاسوسی نہیں ہوئی ہے، جو کہ اصل میں اس معاملے پر پوچھے گئے سوال کا جواب تھا ہی نہیں۔ آخر کس قانون کے تحت برسراقتدار پارٹی کے ذریعہ اپوزیشن کی جاسوسی کرائی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دیا ہی نہیں گیا۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے انکشاف میں ان وزراء (اشونی ویشنو) کے نام بھی سامنے رکھے تھے جو پارلیمنٹ میں حکومت کا دفاع کر رہے تھے۔ ایمنسٹی نے جو انکشاف کیا اس سے انکار کیا ہی نہیں گیا۔ انکشافات میں کہا گیا تھا کہ ’’صحافیوں سمیت تمام ہندوستانی شہری، جنسی استحصال کے شکار، عدلیہ سے جڑے لوگ اور میڈیا کی جاسوسی کی جا رہی تھی۔‘‘ دوسری بات، اس کام کو فوجی سطح کے سافٹ ویئر کا استعمال کر کے کیا جا رہا تھا جو صرف حکومتوں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ تیسری بات کہ یہ سافٹ ویئر سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کر کے خریدا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے، لیکن اس بارے میں کسی کے بھی خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔


سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ رہی کہ سپریم کورٹ بھی حکومت سے نہ تو اس کی تصدیق کرا سکیا اور نہ ہی تردید کرا سکا کہ حکومت پیگاسس کو استعمال کر رہی تھی یا نہیں۔ عدالت نے کوشش تو کی لیکن حکومت نے اس بارے میں کوئی حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ عجیب سی بات یہ بھی ہوئی کہ حکومت نے کہہ دیا کہ وہ ایک کمیٹی بنائے گی جو پتہ کرے گی کہ حکومت نے پیگاسس استعمال کیا یا نہیں۔

مدلل بات تو یہ ہوتی کہ عدالت حکومت کو اس معاملے میں حکم عدولی کا ذمہ دار ٹھہراتی۔ عدالت نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے کورٹ نے حکومت کے اس رخ کو مان لیا کہ وہ کمیٹی بنا دے گی۔ اس کمیٹی کا کام یہ پتہ لگانا ہے کہ مودی حکومت نے پیگاسس کا استعمال کر ہندوستانیوں کی جاسوسی کی یا نہیں۔ اس سوال کا جواب تو عدالت کو خود ہی دینا چاہیے تھا، لیکن یہ جواب ویسے ہی دے دیا گیا جیسا کہ اسکول میں کھو کھو کے کھیل میں ہوتا ہے، کہ اب کوئی اور اسے سنبھالے۔

پانچ مہینے ہو گئے اس کمیٹی کو۔ اس نے فروری میں اپنی ایک عبوری رپورٹ داخل کر دی ہے (آخر رپورٹ عبوری کیوں ہے، وہ بھی ایسے سوال کی جس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہونا ہے)۔ لیکن ہم ہندوستانیوں کو پتہ ہے کہ کمیٹیاں بننے کے بعد کسی بھی معاملے کا کیا ہوتا ہے۔

چلیے اس معاملے کے دوسرے پہلو کی بات کرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہماری جمہوریت نے اس معاملے کو کیسے لیا اور امریکہ، فرانس یا برطانیہ جیسی جمہوریتوں نے اس پر کیسا رد عمل ظاہر کیا۔ ویسے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانی عام طور پر پرائیویسی جیسے معاملوں میں بے توجہ رہتے ہیں، خصوصاً اگر وہ دوسروں سے جڑا ہو۔ سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب بات پرائیویسی اور عزت کی ہو تو ان کا رویہ یہی رہتا ہے کہ ’ہمارے پاس چھپانے کو ہے ہی کیا؟‘ بھول جائیے اس بات کو کہ ہندوستانی قانون پرائیویسی کے حقوق کو بنیادی حقوق مانتا ہے لیکن پھر بھی حکومت اس میں مداخلت کرتی ہے۔

بڑا ایشو یہ ہے کہ برسراقتدار پارٹی اپنے مخالفین اور میڈیا کے خلاف مجرمانہ جاسوسی کر رہا ہے، پھر بھی یہ سیاسی ایشو نہیں بنتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کا غلط استعمال نہ صرف عام بات ہے بلکہ ایسی ہی امید بھی ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے مستقبل کے لیے فکر انگیز اشارہ ہے۔

فکر کی دوسری وجہ ہے ایسے معاملوں میں حکومت کو جواب دہ بنانے کی عدلیہ کی نااہلی اور اپنے حقوق کا استعمال کرنے کی عدم خواہش۔ طویل مدت سے اس حکومت کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ اقتدار کے بنٹوارے اور جوابدہی کے معاملے میں کاغذات پر جو سچ لگتا ہے وہ کاغذات پر ہی رہ گیا ہے۔ یہ بھی ایک فکر انگیز اشارہ ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک مضبوط لیڈر سیاست کو اپنی مرضی سے موڑ سکتا ہے (جیسا کہ 1970 کی دہائی میں ہوا تھا)۔


پیگاسس پر جانچ کمیٹی کیا نتیجہ نکالتی ہے، یہ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے، لیکن یہ ہم میں سے کئی لوگوں کے لیے حیرت انگیز اور یہاں تک کہ ششدر کرنے والا ہوگا، اگر کمیٹی اس جاسوسی کے لیے مودی حکومت کو جواب دہ ٹھہرا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔