مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ، یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیش کش...شاہد صدیقی علیگ

ڈنکا شاہ انگریزوں کے ایسے خطرناک دشمن تھے جو انتہائی جواں مردی کے ساتھ بڑے حوصلے اورمنظم طریقے سے لڑتے رہے اور زندگی کے آخری لمحوں تک انگریز وں کے خلاف ڈٹے رہے

مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ اور ان کا مزار / شاہد صدیقی علیگ
مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ اور ان کا مزار / شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

ہندوستان کی پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے نامور جانبازوں کی طویل فہرست میں مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ کانام ایک امتیازی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ وہ انگریزوں کے ایسے خطرناک دشمن تھے جو انتہائی جواں مردی کے ساتھ بڑے حوصلے اورمنظم طریقے سے لڑتے رہے اور زندگی کے آخری لمحوں تک انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ ان کی پیدائش 1987 میں ہوئی تھی۔ انہوں نے کھلے عام آگرہ میں فرنگیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 1856 کے آخری ایام میں میرٹھ میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دیسی فوجیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں وعظ دیا۔ ایک عرصہ تک شہر در شہر انگریزوں کے خلاف جہاد کی تبلیغ کر کے فیض آباد میں نمودار ہوئے وہ شارع عام پر جہاد کا درس دینے کے علاوہ پیسے بھی تقسیم کرتے۔

ڈنکا شاہ اعلانیہ کہتے تھے کہ انگریزوں کو غارت کرنے آیا ہوں۔ان کی سرگرمیوں کے پیش نظر17 فروری 1857 کو لیفٹینٹ تھامس نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ معمولی جھڑپ کے بعد مولانا زخمی حالات میں گرفتار کر لیے گئے۔ کرنل لیناکس نے احمد شاہ کو سزائے موت کی سزا سنائی۔ اسی اثنا میں 8 جون 1857 کو فیض آبادمیں صوبہ دار دلیپ سنگھ کی قیادت میں عوام نے کمپنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ سکندر شاہ کو قید فر نگ سے چھڑا کر اپنا رہنما تسلیم کیا۔ بعد ازیں مولانا راجہ مان سنگھ کو فیض آباد سونپ کر لکھنؤ کوچ کر گئے۔ 30 جون کو چونہٹ میں مولانا اور سید برکات احمد رسالہ دار نے کمپنی فوج کو عبرت ناک شکست سے دو چار کر دیا۔ انگریز بیلی گارد میں کر قیدیو ں کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہو گئے۔


اودھ کی مسند پر 5 جولائی کو برجیس قدر کی تاج پوشی کی گئی اور امور معاملات کی ذمہ داری بیگم حضرت محل کے سپرد کی گئی۔ ڈنکا شاہ نے بیگم حضرت محل کے ساتھ مل کر انگریزوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا لیکن احمد شاہ کی بے لوث کاوشیں اودھ کے امرا کو گراں گزری۔ محاذ دلّی پر جو مجرمانہ برتاؤ مرزا مغل نے بخت خاں کے ساتھ کیا تھا، وہی رویہ مولوی احمد اللہ کے ساتھ دربار اودھ میں ہوا۔ ستمبر تا دسمبر احمد شاہ کی انقلابی فوج نے جنرل آٔوٹرم، جنرل ہیولاک کو لکھنؤ اور بیلی گارد میں الجھائے رکھا۔ مجاہدین نے 37 مرتبہ رزیڈنسی (بیلی گارد) کو بارود سے اڑانے کوشش کی جسے انگریز ی زر خرید غلاموں نے ناکام بنا دی۔

محاذ لکھنؤ میں موجود انگد تیواری اور قنوجی لال جیسے ملک فروشوں نے انگریزوں کی مدد کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بہرکیف جنرل آوٹرم اور جنرل ہولاک نیپال راجہ رانا جنگ بہادر، گورکھوں، بھوٹانیوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر لکھنؤ پر حملہ آور ہوئے۔ انجام کار انقلابیوں کو برطانوی فوج کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی۔ باڑی کی شکست کے بع داحمد شاہ نے محمدی ضلع کھیری میں 20 مارچ 1858 کو اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ ان کی بادشاہت کا انگریزوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے پچاس ہزار رویپے کے انعام کا اعلان کر دیا۔ اپریل میں بیگم حضرت محل کے سا تھ مل کر لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی آخری کوشش کی۔ حالات کے مدنظر احمد شاہ انقلابیوں کی کمان سنبھالنے شاہجہاں پور پہنچے تو ان کے پیچھے پیچھے نانا صاحب بھی وہاں آ گئے جس کی خبر لگتے ہی چیف آف اسٹاف سرکولن کیمپ بیل وال پول کے ساتھ انہیں پکڑنے خود آگے بڑھا مگر شہر چھوڑنے سے قبل مولوی صاحب نے ایک خاص عمارت کو نذر آتش کر دیا۔ لو اور چلچلاتی دھوپ کے عالم میں انگریزی فوج کو کھلے آسمان کے نیچے رات گزارنی پڑی، جس کے سبب انگریزوں کو متعدد سپاہیوں کی جان چلی گئی۔


انگریزوں کے خلاف نیا محاذ کھولنے کے لیے احمد اللہ کی نگاہ پوایاں راجہ جگن ناتھ کی مملکت پر پڑی جو شاہجہاں پور سے تقربیاً 18 میل کی دوری پر واقع تھی مگر مکروفریب کا پیکر راجہ پس پردہ پچاس ہزار روپے کے لالچ میں انگریزوں سے سودے بازی کر چکا تھا۔ جس نے انہیں تعاون دینے کے حیلہ سے مدعو کیا مگر جیسے ہی احمد اللہ شاہ 5 جون 1858 راجہ کے قلعہ پر پہنچے، ویسے ہی راجہ کا اشارہ پاتے ہی اس کے بھائی بلدیو سنگھ نے ا نہیں گولی مار کر شہید کر دیا۔ راجہ اور اس کے بھائی نے احمد شاہ کا سر تن سے جدا کر کے لال رومال میں لپیٹا اور 13 میل کا فاصلہ طے کر کے انگریزی مجسٹریٹ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ انگریز اہلکاروں نے ان کے سر کو ہیبت طاری کرنے کے لیے کوتوالی کے دروازے پر آویزاں کر دیا اور جسم کو شاہ راہ پر نذر آتش کر کے اپنی انتقام کی آگ بجھائی۔

ہومز نے احمد شاہ کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے، ’’اگرچہ بیشتر باغی بزدل تھے مگر ان کا قائد ایک ایسا شخص تھا جو اپنے جذبات اور اپنی قابلیت دونوں کی نگاہ سے ایک زبردست تحریک چلانے اور ایک زبردست فوج کی قیادت کرنے کے قابل تھا۔ وہ فیض آباد کا مولوی احمد اللہ شاہ تھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔