لوک سبھا انتخابات: ملک کی ساکھ اقتدار سے بہت اوپر ہے

اقتدار آنے اور جانے کے چیز ہے لیکن ملک کی ساکھ اقتدار سے بہت اوپر ہے۔ اقتدار کو ان معیارات کو اونچا اٹھانے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے اور اقتدار کے لئے ان قدروں اور معیارات کو روندنا نہیں چاہئے

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی/ تصویر: یو این آئی</p></div>

پی ایم مودی/ تصویر: یو این آئی

user

سید خرم رضا

عام انتخابات میں انتخابی تشہیر کا معیار جس طرح گر رہا ہے اس نے ذہن کو بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے آزادی کے 75 سال بعد الٹا واپس چلنا شروع کر دیا ہے۔ جن انگریزوں سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی اور آزادی کے بعد اسی انگریز ملک میں جو آج وزیر اعظم ہے اس کا تعلق کہیں نہ کہیں ہندوستان سے ہے۔ ہم اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن کیا ایسا نہیں محسوس ہو رہا کہ اگر ہم یونہی پیچھے کی جانب چلتے رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہم خود پر فخر نہیں کر سکیں گے!

اقتدار میں رہنا، مذہبی ہونا یا اپنی جماعت کے لئے انتخابی تشہیر کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اگر انتخابی تشہیر میں اس بات کا بالکل دھیان نہ رکھا جائے کہ زبان سے ادا کئے گئے جملوں کا اثر کیا اور کہاں تک پڑے گا تو پھر کئی سوال کھڑے ہوں گے۔ انتخابی تشہیر کا ایک معیار ہوتا ہے اور اس تشہیر میں ادا کئے گئے جملوں کے دور رس اثرات کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور وہ بھی اس دور میں جب ہر دن دیا گیا بیان ویڈیو کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے۔


اقتدار میں بنے رہنے اور حزب اختلاف کو شکست دینے کے لئے کسی بھی پارٹی یا اتحاد کا سربراہ اپنے مخالفین پر الزام لگاتا ہے لیکن اس سربراہ کی کوشش یہ رہتی ہے کہ کوئی بھی الزام ایسا نہ ہو جس کو ثابت نہ کیا جا سکے اور جس کے اثرات ملک کے مستقبل پر پڑیں۔ وزیراعظم جو کسی پارٹی یا اتحاد کے سربراہ نہیں ہیں بلکہ ملک کے ایک اہم آئینی عہدہ پر فائز ہیں۔ قومی جمہوری اتحاد کے سربراہ امت شاہ ہیں لیکن اس اتحاد کی پہچان وزیر اعظم ہیں۔ ان انتخابات میں وزیر اعظم نے جن موضوعات پر لب کشائی کی ہے وہ کسی اہم آئینی عہدہ پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتی۔ ویسے تو وزیر اعظم کی جانب سے پوری حکومت اور خود امیدوار بولنے کے لئے ہوتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پوری ذمہ داری وزیر اعظم اور امت شاہ نے لی ہوئی ہے۔

نوکریوں، ترقی، مہنگائی پر کوئی بھی خوب بول سکتا ہے لیکن بولتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ کسی کے بولنے سے ملک میں کوئی تفریق تو نہیں پیدا ہو رہی اور ملک کی ترقی کے معمار تو آپ کے جملوں سے اثر انداز نہیں ہو رہے! وزیر اعظم کو بھینس، منگل سوتر جیسے بیانات سے تو پرہیز کرنا ہی چاہئے ساتھ میں ان کو اپنے ملک کے کارپوریٹ گھرانوں پر اس وقت بیان نہیں دینا چاہئے جب وہ خود اقتدار میں ہوں اور یہ کہنا کہ ٹیمپوں میں نوٹ دئے جا رہے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ کہ وزیر اعظم اپنی حکومت کی کارکردگی پر ہی سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ کیا ان کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کالا دھن بڑی تعداد میں موجود ہے جو انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو دیا جا رہا ہے تو پھر نوٹ بندی کیوں کی گئی تھی؟ جب ملک کا وزیر اعظم رقم دینے والے اور لینے والے کا نام لے رہا ہے تو کیا اس سے حکومت کی اہلیت پر سوال نہیں کھڑا نہیں ہوتا؟


ایسے بہت سے مسائل ہیں جن پر وزیر اعظم کو لب کشائی کرتے وقت سوچنے کی ضرورت ہے اور اگر وزیر اعظم سے کہیں غلطی ہو بھی رہی ہے تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدام کو روکے۔ وزیر اعظم تو اہم آئینی عہدہ پر فائز ہیں اس لئے ان کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن حزب اختلاف اور سیاسی رہنماؤں کو بھی ان اصولوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ بہرحال انتخابی تشہیر کا معیار بہت گر رہا ہے اور وزیر اعظم جو ایک اہم آئینی عہدہ پر فائز ہیں ان کو سمت میں از خود قدم اٹھانا چاہئے۔ اقتدار آنے اور جانے کے چیز ہے لیکن ملک کی ساکھ اقتدار سے بہت اوپر ہے۔ اقتدار کو ان معیارات کو اونچا اٹھانے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے اور اقتدار کے حصول کے لئے ان قدروں اور معیارات کو پیروں تلے روند نہیں دینا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔