آہ! کلدیپ نیر کی خدمات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا

کلدیپ نیر نے اردو صحافت کی نشاۃ ثانیہ کے عمل میں نہ صرف یہ کہ حصہ لیا بلکہ اُردو سے اِن کا رشتہ زندگی کے آخری ایام تک جڑا رہا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

محمد شرافت علی

ممتاز صحافی جناب کلدیپ نیرنہیں رہے۔تقریباً95 برس کی عمر میں موصوف نے آخری سانس لی۔ کلدیپ نیرمابعد آزادی اُردو صحافت کوبطور کالم نویس صحت مند فکری غذا فراہم کرانے کے حوالہ سے اپنی مثال آپ کہلاسکتے ہیں،جنہوں نے فرقہ پرستی کے خلاف اپنے جذبوں کے اظہارمیں کبھی بھی کوتاہی نہیں برتی۔سیکولر خیالات کی ترویج کلدیپ نیر کا صحافتی طرۂ امتیاز رہا ،جنہوں نے آزاد ی کے بعد ہندوقوم پرستی کے خبط میں مبتلا عناصر سے مرعوب ہوئے بغیراردوصحافت سے اپنے دیرینہ رشتہ کو قائم رکھا۔یہ وہ عہدتھاجب فرقہ پرست عناصرکی جانب سے دہلی کے ان میڈیا مراکز کوبطورخاص نشانہ بنایاجارہاتھاجو’مسلم فرقہ‘کے ترجمان کہلاتے تھے۔

دہلی میں واقع ’ڈان‘ اخبار کے دفتر پرحملہ کے بعددہلی کا ’جنگ‘ مذہبی جنونیوں سے جنگ لڑنے کامتحمل نہیں رہااور’گوشۂ عافیت‘ کی تلاش میں اس نے پاکستان ہجرت کرلی۔اس صورتحال میں ’انجام‘ اوراس عہد کے دیگر اردواخبارات نے بھی ہندوستان سے فرارکومقدم جانا۔ ’لسانی و تہذیبی دہشت گردی‘ کے اس ماحول میں صدیوں پرانی ہندوستانی تہذیب سے لوگوں کو جوڑنے اور بقائے باہم کے فلسفہ کو عام کرنے کی کوشش جن صحافیوں نے کی اُن میں یقینا ً کلدیپ نیر سر فہرست قرار پانے کے مستحق ہیں۔

دلچسپ یہ بھی ہے کہ آزادی کے فوراًبعدشروع ہونے والی’ لسانی دہشت گردی‘ا ور ’تہذیبی انہدام پسندی‘ کے دوران دہلی کی اردو صحافت کاشیرازہ جب منتشر ہوا اور بحیثیت مجموعی آزادہندوستان میں اردوصحافت کیلئے عرصۂ حیات تنگ کرنے کی مخصوص طبقہ کی جانب سے دانستہ وشعوری کوشش کی گئی تواُس دورمیں کلدیپ نیرنے اردوصحافت کی نشاۃثانیہ کے عمل میں نہ صرف یہ کہ حصہ لیابلکہ اُردو سے اِن کا رشتہ زندگی کے آخری ایام تک جڑا رہا۔

یوں تو آزادی کے بعداردوزبان کے ساتھ ملک گیر سطح پر اکثریتی طبقے نے بے مروتی دکھائی لیکن اردوصحافت کا معاملہ تھوڑا مختلف رہا۔دوقومی نظریے کی بنیادپر پاکستان کاقیام کیاہوا، برصغیرکی سب سے بڑی مہاجرت کا ایسا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی نظیردنیامیں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہندوستان سے ایک بڑی مسلم آبادی نے اس بدگمانی میں ہجرت کیلئے رخت سفر باندھنا شروع کردیا کہ ان کادین وایمان ’کفرستان‘ میں سلامت نہیں رہ سکتا۔یہی صورتحال سرحدکی دوسری جانب برسوں سے آباد ہندوؤں اورکسی حدتک سکھوں میں بھی دیکھی گئی۔ انہوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ’مملکت خداداد‘میں ان کاجینا دو بھرہے، ’جائے امان‘کی تلاش میں ہندوستان آنے کافیصلہ کر لیا۔شرنارتھیوں کی صورت میں ہندوستان آنے والی انسانی آبادی کویوں تو ہندوستانیوں نے آگے بڑھ کرگلے لگایااورانہیں وہ تکریم بھی بخشی گئی جوعام ہندوستانیوں میں مہمان نوازی کاجزولازم تصورکیا جاتا تھا لیکن اس کے ٹھیک برعکس دہلی میں ’ڈان ‘کے دفتر کو جنونیوں کے ذریعہ خاکستر کئے جانے کے بعد’جنگ‘ اور دیگر صحافتی اداروں کوتحفظ فراہم کرائے جانے کی کوئی ایسی مثال ہمیں نہیں ملتی جس سے یہ تاثر قائم ہو کہ اردوصحافت کے شیرازہ کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی کوشش کی گئی ہواور ان کے درمیان قیام پاکستان کے بعد پیداہونے والی بے اعتمادی وکشمکش کی صورتحال کے خاتمہ کی کوئی سبیل نکالی گئی ہو۔

اردوصحافت پر 1947کے المیہ کااثر یہ ہوا کہ صحافت بھی مذہبی رنگ میں رنگ گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ یہ علمی پیشہ سماجی پستی کاایسااظہاریہ بناکہ قارئین تک خبروں کی ترسیل کاپورانظام مذہبی جنون کے ماتحت آگیاجس کی بناپرہندوؤں اور مسلمانوں کی ملکیت والے اخبارات مذہب پسندی کے خبط میں ایسے مبتلاہوئے کہ اردوصحافت نے اپنی حیثیت کھودی اور خودکلدیپ نیّرجیسے سلجھے ہوئے صحافی بھی اس کائنات کوخیرباد کہنے کے لیے جوازڈھونڈنے پر مجبورہوگئے ۔نتیجے کے طورپرانہوں نے انگریزی کی راہ لے لی ۔

اردوصحافت کی اس یتیمی کی سماجیات کیاہے؟اس حقیقت کوجاننے کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ ہم گہرائی میں جاکراردوصحافت کوسماج کے رشتوں سے اور اردوکے صحافتی سماج کو اردو صحافت کے وسیلے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔جب تک سماجیاتی پس منظر کو سمجھانہیں جائے گااور اس تناظرمیں عصری مسائل سے آگہی کی کوشش نہیں کی جائے گی،قدروں کے تغیروتبدل کادرست طریقے سے جائزہ نہیں لیاجائے گا،اخبار ات کے قارئین کے ذوق سلیم اور تقاضوں کو پرکھا نہیں جائے گا اردوصحافت کی یکلخت تبدیل ہو جانے والی شکل و شباہت کے اسباب کاصحیح تعین ممکن نہیں ہوسکے گا اورپھریہ نتیجہ بھی اخذکرنامشکل ہوگاکہ دہلی میں اپنے جمے جمائے صحافتی کاروبارکوختم کرتے ہوئے انجام کارپہلے’ جنگ‘یہاں سے کیوں چلاگیااور پھر’انجام‘اپنے انجام کی پروا کیے بغیررخت سفر باندھنے پرکیوں مجبور ہوا؟

آزادی کے فوراًبعد ملک بھرمیں رونماہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے طویل سلسلے کا آغاز فکری رویوں کی اس تبدیلی کا بڑاسبب بناجس نے مذہبی جنون میں مبتلاہوکرایک بھائی کودوسرے بھائی کاخون بہانے کی ترغیب ہی نہیں دی بلکہ اس عہدمیں انسان دوستی اور اخوت و بھائی چارگی جیسے الفاظ کو حقیقی معنویت سے محروم بھی کیاگیا۔ فرقہ واریت کی اس آندھی سے دہلی محفوظ ومامون نہیں رہ سکی ۔ایک طوفان برپاہواجس نے دہلی میں بھائی چارے کی بنیادکو ہلا کررکھ دیا۔ مذہبی خلیج نے لکیریں ایسی کھینچ دیں کہ صحافت سے وابستہ طبقہ اشرافیہ بھی ذہنی اعتبارسے دومتوازی قبیلوں میں تقسیم ہوگیااور صحافتی سرپرستی کایہ منہاج مریضانہ افکاروخیالات کی ترویج و اشاعت کاسبب بن کررہ گیا۔

مہاجرت کے اس عمل کے اختتام کے بعدکاآزاد ہندوستان ’غلام ہندوستان‘ کے مقابلے فکری اور نظریاتی اعتبار سے یکسر مختلف اور متضاد بن گیا۔صدیوں پرانی تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی پراس نے گہرامنفی اثرڈالابلکہ سچ تویہ بھی ہے کہ صلح کل ،رواداری اور باہمی میل ملاپ کے پیغامات کی ترویج و اشاعت کے بجائے بغض و عنادکوہوادینے ، نفرت انگیزخبروں کو نمایاں طور پرنذرقارئین کرنے کاسلسلہ چل پڑاجس کے نتیجے میں منتشر اردوصحافت کی احیا کانیا سفرنئی فکراورنئی سوچ سے عبارت قرارپایا۔دومخصوص اور متوازی لہروں سے اردوصحافت کا سروکار بڑھا۔ اس عہد کے اخبارات کو پیش نظر رکھ کریہ تاثر قائم کرنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مذہبی وابستگی صحافتی تقاضوں پر کلیتاً غالب آگئی۔ ایک طرف اردوذرائع ابلاغ پرمسلم لیگ کی بخشی ہوئی ذہنیت کااثرآزادی کے بعد کے ابتدائی چار پانچ برسوں کے دوران دیکھا گیا تودوسری جانب پاکستان سے بے گھرہو کردہلی کواقامت گاہ بنانے والی اردوصحافیوں کی بڑی جمعیت مختلف اردو اخبارات کی وساطت سے تارکین وطن کی فکری وذہنی آسودگی کاسامان مہیاکراتی رہی۔مخصوص میلانات اور محدود ومقید نظریے کی حمایت و مخالفت سے عبارت اردو صحافت کایہ منظرنامہ سنجیدہ ومتین قارئین کیلئے اردو صحافت سے بُعد کاسبب بھی بنتا رہا پھر بھی اردو صحافت کی ڈوبتی کشتی کی ناخدائی کافریضہ انجام دینے والے مذکورہ بالا دونوں گروہوں نے فرقہ وارانہ خطوط پر مذہبی وابستگی کاخوب ڈھول پیٹا۔اہم اورقابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کلدیپ نیر نے آزادی کے بعد سے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اعتدال،توازن اورمیانہ روی کے ساتھ صحافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اردوصحافت کوصحتمند فکری غذا کی فراہمی کی کوشش کی۔یہ کوشش کہاں تک کامیاب رہی اورکس حد تک انہوں نے اُردو صحافت کو تندرستی و توانائی بخشی؟آج نہیں تو کل مورخ موصوف ان کی خدمات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ سچ تو یہ بھی ہے کہ کلدیپ نیر کی تحریریں اردو صحافت کو اعتباربخشنے کے حوالہ سے قابل قدرکہلانے کی مستحق ہیں۔

(مضمون نگارنئی دہلی کے اخبار’ہندوستان ایکسپریس ‘ کے نیوز ایڈیٹرہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔