حجاب تنازع کا ایک سال مکمل: کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے تعلیمی سال

کرناٹک میں حجاب تنازعہ کے ایک سال بعد نتیجہ یہ نکلا کہ حجاب پہننے والی مسلمان لڑکیاں یا تو اپنی تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئیں یا ایسے کالجوں کا رخ کیا جہاں یہ پابندیاں نہیں تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>حجاب کے حق میں احتجاج کی فائل تصویر / Getty Images&nbsp;</p></div>

حجاب کے حق میں احتجاج کی فائل تصویر / Getty Images

user

ناہید عطا اللہ

کرناٹک میں حجاب تنازعہ کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس تنازعہ کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے۔ غوثیہ جو بی ایس سی کی امتیازی طالب علم ہے وہ اب تک گریجویشن کر چکی ہوتی، لیکن وبائی امراض اور حجاب کے تنازعہ کی بدولت اس کا تین سالہ انڈرگریجویٹ کورس پانچ سال تک بڑھ گیا، اور اس کا ابھی ایک سیمسٹر باقی ہے جس میں مزید ایک سال لگے گا۔

غوثیہ کرناٹک کے کالجوں کی ان بہت سی طالبات میں سے ایک ہیں جو حجاب پہنتی ہیں اور انہیں کالج کیمپس کے اندر ریاستی حکومت کے اسکارف پہننے پر پابندی کے حکم کے بعد سرکاری یا امدادی اداروں کو چھوڑ کر اقلیتی کالجوں میں داخلہ لینا پڑا۔ غوثیہ نے بتایا کہ ’’میں آخری سال کے چھٹے سمسٹر میں تھی جب مئی 2022 میں یونیورسٹی آف منگلور کالج کے حکام نے مجھ سے کہا کہ اگر میں نے کلاس روم کے اندر حجاب پہننا جاری رکھا تو پڑھائی چھوڑ دو۔ میں نے منگلور یونیورسٹی سے منسلک بیسنٹ کالج میں منتقلی کی کوشش کی، لیکن چونکہ یہ کالج کے لیے وسط سال تھا، مجھے مارچ 2023 میں آنے کے لیے کہا گیا۔‘‘


غوثیہ نے کہا کہ اگر کوئی لڑکی پڑھائی میں ایک سال بھی کھو دے تو یہ اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ ''پچھلے چند مہینوں میں، میں نے تعلیم دینے کی کوشش کی، کھانے میں اپنا ہاتھ آزمایا، دلہن کی مہندی ڈیزائننگ کے لیے اسائنمنٹس لیے اور کچھ کمانے کے لیے ٹیلرنگ بھی سیکھی۔ ایک ہونہار طالب علم کے لیے سیمسٹر سے محروم ہونا بہت تکلیف دہ ہے، لیکن میرے والدین نے ہر وقت مدد کی اور مجھے اس وقفے میں وہ کرنے کی اجازت دی جو میں چاہتی ہوں۔‘‘ کرناٹک میں حجاب تنازعہ کے ایک سال بعد اس مسئلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حجاب پہننے والی مسلمان لڑکیاں یا تو اپنی تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئیں یا ایسے کالجوں کا رخ کیا جہاں یہ پابندیاں نہیں تھیں۔

پیپلز یونین فار سیول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کی کرناٹک یونٹ نے 9 جنوری 2023 کو جاری کردہ اپنی سروے رپورٹ جس کا عنوان ہے، ’تعلیم کے دروازے بند کر نا‘ جس میں انہوں نے حوالہ دیا ستمبر 2022 میں مقننہ کے اجلاس کے دوران ریاستی حکومت کے جواب کا حوالہ دیا اور اس میں کہا گیا تھا کہ کل 1,010 حجاب اور دیگر وجوہات کی وجہ سے طالبات تعلیم سے دور ہو گئیں۔


پی یو سی ایل کی رپورٹ کی توثیق کرتے ہوئے غوسیہ نے کہا کہ انہیں ان کی ہم جماعتوں نے ولن کے طور پر دیکھا۔ ''ایک موقع پر ہم نے حجاب اتارنے اور اپنے سروں کو شالوں (دوپٹوں) سے ڈھانپنے پر اتفاق کیا، جس کا رنگ ہماری یونیفارم جیسا ہی تھا، جس کی اجازت نہیں تھی۔ میں اپنی دوستوں کے ساتھ برآمدے میں بیٹھ کر وہ لیکچر سنتی رہی اور یہاں سے بھی ہمیں چلے جانے کے لیے کہا گیا، کیونکہ اس سے دوسری طلبات کی توجہ ہٹ رہی تھی۔ بعد میں ہم لائبریری میں شفٹ ہوئے اور وہاں سے بھی باہر کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے کیمپس کے گیٹ کے باہر دھرنا دینے کے بارے میں سوچا لیکن پولیس کی نفری نے اسے بھی روک دیا۔‘‘

غوسیہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرنے کے لیے مارچ تک انتظار کر رہی ہے، زبیدہ (نام بدلا ہوا ہے) جیسی طالبات نے منگلورو چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ 10 دیگر طالبات کے ساتھ زبیدہ نے دوسرے کالج میں ٹرانسفر لے لیا۔ زبیدا کہتی ہیں کہ ’’میں نے اپنے کالج کے قریب ایک اپارٹمنٹ لیا اور اسے اپنے چار دوستوں کے ساتھ شیئر کیا۔ میں نے دسمبر 2022 میں اپنا ایل ایل بی مکمل کیا اور اب حفظ قرآن کر رہی ہوں جسے میں رمضان تک مکمل کرلوں گی اور اس کے بعد میں قانون کی پریکٹس شروع کرنا چاہتی ہوں۔‘‘


فاطمہ شازمہ، بی اے فرسٹ ایئر صحافت کی ایک طالبہ نے بتایا کہ جب اس نے کلاس روم کے اندر حجاب اتارنے سے انکار کر دیا تو اسے منگلور یونیورسٹی کالج چھوڑنے کو کہا گیا۔ اب بیسنٹ کالج کی طالبہ فاطمہ کا ایک سال ضائع ہو گیا ہے کیونکہ اسے نئے سرے سے شروع کرنا پڑا۔ اس نے کہا کہ ''پورا تنازعہ ایک سازش تھی اور یہ میرے کالج میں اس وقت شروع ہوا، جب یہ معاملہ دوسرے اداروں میں کم ہو رہا تھا‘‘۔

عائشہ عفرا جیسے کیسز بھی ہیں، جنہیں وہ کورس تبدیل کرنا پڑا جسے وہ پڑھ رہی تھیں کیونکہ یا تو حجاب کی اجازت دینے والے کالجوں میں یہ کورس نہیں تھا یا فیس بہت زیادہ تھی۔ بی ایس سی (کیمسٹری بائیلوجی اور زولوجی) کی طالبہ عفرا تیسرے سمسٹر میں تھی، جب حجاب کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔


عائشہ عفرا نے بتایا کہ ''شروع میں میرے کالج نے ہمیں اپنے دوپٹہ سے سر ڈھانپنے کی اجازت دی۔ لیکن میرے کچھ ہم جماعتوں نے، جو میرے دوست تھے، شکایت کی اور مجھے دوسروں کے ساتھ جانے کو کہا گیا۔ چونکہ حجاب پہننے کی اجازت دینے والا کوئی دوسرا کالج نہیں تھا، اس لیے میں نے کورس تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایک ایسے کالج میں داخلہ لیا ہے جو حجاب کی اجازت دیتا ہے اور میں نے بائیو ٹیکنالوجی میں انجینئرنگ کا انتخاب کرکے نئے سرے سے شروعات کی۔ میں نے دو سال ضائع کیے، جبکہ میرے کچھ دوست جو فیس برداشت نہیں کر سکتے تھے انہوں نے تعلیم بند کر دی ہے۔‘‘ یہ لڑکیاں بس یہی چاہتی ہیں کہ کوئی ان کے بیتے ہوئے تعلیمی سال لوٹا دے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔