بینکوں کے نیشنلائزیشن کی سالگرہ پر ماہرین نے حکومت کو کیا متنبہ، سرکاری بینکوں کا پرائیویٹ ہاتھوں میں جانا تباہناک

آل انڈیا بینک آفیسرس ایسو سی ایشن نے سرکاری بینکوں کی نجکاری سے متعلق کسی بھی کوشش کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملازمتیں جائیں گی، برانچ بند ہوں گے اور مالیاتی شمولیت پر روک لگ جائے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آدتیہ آنند

آج 19 جولائی ہے، آج کا دن انتہائی اہم اس لیے ہے کیونکہ آج ہی کے دن 1969 کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک کے 14 بینکوں کو نیشنلائزڈ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس قدم سے ملک کی معیشت کو پنکھ لگے اور مالیاتی شمولیت کو فروغ ملا جس کے سبب ہندوستان ایک ابھرتی ہوئی مضبوط معیشت بن سکا۔

لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران سرکاری بینکوں کو بدنام کرنے اور ان کے سبھی مسائل کو حل کرنے کی جگہ یہ کہہ کر ان کی نجکاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ حکومت کی ملکیت ہونے کے سبب ہی سارے مسائل ہیں۔ اسی بنیاد پر سرکاری بینکوں کو پرائیویٹ ہاتھوں مین سونپنے کی کوششیں جاری ہیں۔

منگل کے روز کانگریس رکن پارلیمنٹ اور پارٹی کمیونکیشن ہیڈ جئے رام رمیش نے اس ایشو کو ایک ٹوئٹ کے ذریعہ سے اٹھایا۔ انھوں نے لکھا کہ ’’آج سے 53 سال پہلے بینکوں کا نیشنلائزیشن ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ لیکن اب مودی حکومت نجکاری کرنے پر آمادہ ہے۔ سرکاری بینکوں کو مقابلے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن حکومت انھیں فروخت کرنے کے لیے کوشاں ہے، وہ بھی اپنے کچھ پسندیدہ لوگوں کے ہاتھوں میں، یہ تباہناک ثابت ہوگا۔ کانگریس پارٹی بینک فروختگی بل کی مخالفت کرے گی۔‘‘


اسی ایشو پر آر بی آئی کے سابق افسر سشیل رگاڈے نے کہا کہ ایک طرف تو مرکزی حکومت سرکاری بینکوں کو ضرورت کے مطابق اضافی پونجی دینے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ سرکار خود ہی مالی بحران میں ہے۔ بینکوں کو اس پونجی کی اس لیے ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی پونجی سے متعلق ضروری اوسط کو بنائے رکھتے ہوئے قرض دینے کا عمل جاری رکھ سکے۔ انھوں نے کہا ’’لیکن انہی مسائل کا بہانہ بنا کر حکومت بینکوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق حکومت اگر ان بینکوں سے اپنی ملکیت ختم ہی کرنا چاہتی ہے تو کم از کم ان بینکوں کی صحیح قیمت کا اندازہ کرنا ضروری ہے۔ ایک سینئر بینکر نے کہا کہ ’’بینکوں کی صحیح قیمت کا اندازہ کرنے کا ایک طریقہ ان کی موجودہ بازار پونجی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینک کے صحیح خریدار کی شناخت کے لیے بھی کسی ایسے شخص یا کمپنی کو دیکھنا ہوگا جس کے پاس مالی قوت ہے تاکہ وہ مارکیٹ کیپٹل سے میل کھا سکے۔ اگر بینکوں کو ایسے ہی فروخت کر دیا گیا تو سرمایہ کار نیت پر سوال اٹھائیں گے ہی۔‘‘


نیشنل اسٹاک ایکسچینج کے ظاہری اعداد و شمار کے مطابق 31 مارچ 2022 کو سرکاری بینکوں کا مارکیٹ کیپٹل 724436.21 کروڑ روپے تھا۔ ’دی ہندو‘ اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری بینکوں میں سرکار کی شراکت داری 100 فیصد نہیں ہے اور ایک اندازے کے مطابق مارکیٹ کیپٹل کے حساب سے ان بینکوں میں سرکار کی حصہ داری 480207.35 کروڑ روپے کی ہے۔

نیشنل کونسل آف ایپلائیڈ اکونومک ریسرچ (این سی اے ای آر) کی سفارشات کے مطابق سب سے پہلے ان بینکوں کی نجکاری کرنی چاہیے جن کی ملکیتیں بہتر ہیں اور این پی اے کم۔ مہاتما پھولے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ کمپیوٹر اسٹڈیز سے جڑے پونے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سنتوش کھلاتے کا کہنا ہے کہ ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو بھی اچھے بینک ہیں انھیں سب سے پہلے فروخت کر دیا جائے۔‘‘

سرکاری بینکوں کے این پی اے پر ریسرچ پیپر لکھنے والے ڈاکٹر کھلاتے نے اس بات کو نشان زد کیا کہ جس وقت بینکوں کی نجکاری کی بات ہو رہی ہے، اسی دوران حال کے سالوں میں بینکوں کے این پی اے میں سال در سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا خاص طور سے نیشنلائزڈ بینکوں کے ساتھ ہے اور اس مسئلہ کو سمجھ کر سلجھانے کی ضرورت ہے۔

این سی اے ای آر کی سفارشات کے مطابق اسٹیٹ بینک کے علاوہ سبھی سرکاری بینکوں کی نجکاری کر دی جانی چاہیے کیونکہ پرائیویٹ بینک ٹھیک ٹھاک بازار حصہ داری کے ساتھ سرکاری بینکوں کے متبادل کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ سرکاری بینکوں میں حکومت کی شرات داری ہے اس لیے آر بی آئی بھی بینکنگ سیکٹر کو ٹھیک طرح ریگولیٹ نہیں کر پا رہا ہے۔


اس درمیان آل انڈیا بینک آفیسرس ایسو سی ایشن نے سرکاری بینکوں کی نجکاری کی کسی بھی کوشش کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ملازمتیں جائیں گی، برانچ بند ہوں گے اور مالیاتی شمولیت پر روک لگ جائے گی۔ اعداد و شمار سے پتہ لگتا ہے کہ سرکاری بینکوں کا انضمام کرنے سے اب سرکاری بینکوں کی تعداد 27 سے گھنٹ کر 12 ہو گئی ہے۔ اسی طرح سرکاری بینکوں کے برانچ کی تعداد بھی مارچ 2017 کے مقابلے ستمبر 2021 میں 3321 کم ہو گئی ہے۔ کنفیڈریشن کی جنرل سکریٹری سومیہ دتہ نے بتایا کہ ’’سرکاری بینکوں کا انضمام کرنے اور برانچوں کی تعداد گھٹائے جانے سے ملازمین کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ جہاں مارچ 2017 میں سرکاری بینکوں میں 8.57 لاکھ ملازمین کام کرتے تھے اب ان کی تعداد مارچ 2021 میں گھٹ کر 7.7 لاکھ رہ گئی ہے۔‘‘

آل انڈیا بینک آفیسرس کنفیڈریشن کو فکر ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہونے کے ساتھ ہی سرکاری بینکوں کی نجکاری سے ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ بھی کم ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’نجی سیکٹر میں تو کمزور طبقات کے لیے ریزرویشن کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔‘‘

بینکنگ سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکار چونکہ اپنے منصوبوں اور منشا کو عوامی نہیں کرتی ہے اس لیے اندیشہ یہی ہے کہ حکومت اپنے کچھ پسندیدہ امیر دوستوں کو ہی سرکاری بینک سونپنا چاہتی ہے۔ ایک سبکدوش بینکر نے کہا کہ ’’نجکاری کے اس طریقے کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ملک بھر میں برانچوں کے ساتھ 100 سال سے زیادہ پرانے اداروں کو صرف کچھ چنندہ لوگوں کو تھالی میں رکھ کر نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ضروری اصلاحات کی شروعات کرنی چاہیے۔ این پی اے کو ہدف بنا کر بینکنگ نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Jul 2022, 10:04 PM