عید دستر خوان سجانے کا نہیں کردار سنوارنے کا نام ہے

عید اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور اپنے کردار کی اصلاح کرنے کا نام ہے۔ فدائین اسلام کے لئے ہر وہ دن عید کا دن ہے جس دن اس سے کوئی گناہ نہ ہو۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

ماہ مبارک رمضان میں بھوک، پیاس، کثرت عبادات کا فلسفہ دین اسلام کا مغز ہے مگرموجودہ وقت کے ’تعلیم یافتہ‘ مسلم معاشرے میں کس قدر اس کی دھجیاں بکھیر دی جا تی ہیں کہ عام لوگ بھی شرمندہ ہونے سے نہیں رہ پاتے۔ ماہ رمضان کا مقصد بھوک پیاس اور تقوے سے ایسی تربیت حاصل کی جائے جو سال کے با قی 11مہینوں میں بھی نظر آئے لیکن عید کے دن کی ابتدا کے ساتھ ہی رمضان کا سارا رنگ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے، رنگ و نور ناچ گانا کرکے ماہِ رمضان کی روح کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، مہنگے ترین ملبوسات پہن کر غریبوں، مسکینوں، لا چاروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ رمضان کا مقصد غریبوں کی بھو ک پیاس اور ضرورتوں کا خیال رکھنا تھا لیکن عید کے دن اِس فلسفے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ عید کا تصور اور مقصد محض ناچ گانا اور تہوار نہیں ہے بلکہ یہ دن بھی خدا کے شکر اور عبادات کا ہے۔

عید کا دن اپنے خالق حقیقی سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کا دن ہے، خدا سے روحانی تعلق استوار کرنے کا دن ہے، اس لئے عید الفطر دراصل روزہ دار مسلمانوں کے لئے خو شی اور مسرت کا باعث ہے اور عید الاضحی کے پس منظر میں حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل کی بے پناہ استقامت اور عظیم قربانی کا عکس کارفرما ہے یعنی دونوں تہواروں میں با مقصد اور احساس عبدیت کا رنگ ہے۔ بلا شبہ عید باعث مسرت بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ صدیوں سے ہما رے آباء و اجداد نے نہ جانے کتنی عیدیں منائی ہیں اور روز محشر تک اہل اسلام مناتے رہیں گے لیکن اگر ہم گزرنے والی عیدوں کا بغور مشاہدہ کریں توشاید ایسی چند ہی عیدیں گزری ہوں گی جو محبوب خدا کے دور میں حقیقی معنوں میں خوشی اور حقیقی مسرت کا احساس دلاتی ہوں۔ عیدیں اہالیان اسلام کے لئے قومی ثقافتی زندگی کے دو اہم مواقع ہیں۔


ہادی دو جہاں نے عید کی خوب خوشی منانے کے لئے فرمایا ہے اور خو شی کا اظہار فطری اور بر محل بھی ہے لیکن اسلام نے خوشی اور غمی کے موقعوں پر کچھ حدود بھی قائم کر دی ہیں۔ مسلمانوں میں عیش میں یادِ خدا اورطیش میں خوفِ خدا نظر آنا چاہیے۔ اسلام نے خوشی کی اجازت اس حد تک دی ہے کہ غفلت کا رنگ نظر نہ آئے اور غم کو اتنا طاری نہ کیا جائے کہ زندگی عذاب لگنے لگے۔ اس وقت اہالیان وطن خو شیوں میں غرق ہیں جبکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عید محض ایک دن ہے یا اِس کی اہمیت کچھ اور بھی ہے؟ کیا عید صرف مہنگے، چمکیلے ملبوسات اور روپیہ اڑانے کا نام ہے؟ سینما گھروں، ہوٹلوں میں جاکر دولت لٹانے کا نام ہے؟ لمبی چوڑی مہنگی دعوتیں، لذیذ کھانے کھلا نے کا نام ہے؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عید دوسروں کے احساس کا نام ہے، دوسروں سے خو شیاں شیئر کر نے کا نام ہے اور دوسروں میں خو شیاں بانٹنے کا نام ہے۔ عید کا دن اپنے اندر خاص مقصدیت رکھتا ہے، خا ص روحانی رنگ ہو نا چاہیے، عید کے دن مہنگے اجلے ملبوسات پہننا کافی نہیں بلکہ دل و دماغ کا اجالا رکھنے کی ضرورت ہے۔

عید دستر خوان سجانے کا نہیں کردار سنوارنے کا نام ہے۔ اگر ہم اجتماعی طو رپر دیکھیں تو سچ تو یہی ہے کہ ہمیں عید منانے کا حق نہیں ہے کیو نکہ جو قوم سر تا پیر گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہو وہ کس چیز سے خوش ہوسکتی ہے؟۔ جو قوم صرف ایک دن ہنسے اور سال کے باقی دن روئے تو ایک دن کا تبسم کیا معنی رکھتا ہے؟ جو قوم ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کے کروڑوں ہم وطن سارا سال روٹی کے نوالے کو ترسیں تو ایک دن کا خوب کھایا پیا کس کام کا ؟جو قوم عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملے اور اگلے ہی دن ایک دوسرے کو کھانے کے لئے دوڑے تو ایسا ’عیدملن‘ کس کام کا؟ جو عید کے دن فطرے کے چند روپئے بانٹ کر اور بڑی عید پر بچا کچھا گوشت غریبوں میں بانٹ کر خوش ہوتی ہو اور سال کے با قی دنوں میں غریبوں کو دھکے مارتی ہو، ایسے فطرانے اور گو شت کا کیا فائدہ۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جس قدر زہریلے ہو چکے ہیں، مطلبی ہو چکے ہیں، مفاد پرستی میں غرق ہو چکے ہیں، کیا ہم عید کے حقیقی پیغام کو اپناتے ہیں؟ کیا ہم عید کی خوشیاں غریبوں میں بانٹتے ہیں؟ کیا رمضان المبارک کا رنگ سارا سال ہم پر قائم رہتا ہے؟ کیا ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتیں دوسروں میں بانٹتے ہیں، کیا ہم دوسرے غریبوں کا درد محسوس کرتے ہیں؟۔


اگر ہم عید کے دن لغویات میں مصروف رہیں گے تو ہم خدا کے قریب ہونے کی بجائے دور ہو جائیں گے۔ خدا سے روحانی تعلق استوار ہونے کی بجائے خدا سے دور ہوتے جائیں گے جس طرح خوشبو کے بغیر پھول، تپش کے بغیر آگ، کرن کے بغیر چاند، لو کے بغیر سورج، ٹھنڈک کے بغیر برف اور آہ سرد کے بغیر عشق نا مکمل ہے اِسی طرح جب تک عید کا تہوار ہم غریبوں کے ساتھ مل کر نہیں مناتے، عید دوسروں میں خوشی لانے کا سبب نہیں بنتی، ہمارے درمیان پیارمحبت کے ترانے نہیں بجتے، اخوت و رواداری اور پیار کے گلستان نہیں مہکتے اس وقت تک ہم عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہیں گے۔ پتہ نہیں ہماری قوم کو کب حقیقی عید کی خوشیاں نصیب ہوں گی؟ کب ہم حقیقی خوشیوں سے لبریز حقیقی عید منائیں گے۔ عید اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور اپنے کردار کی اصلاح کرنے کا نام ہے۔ فدائین اسلام کے لئے ہر وہ دن عید کا دن ہے جس دن اس سے کوئی گناہ نہ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔