بی جے پی اور نریندر مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں...ابھے شکلا

ہماچل میں کانگریس کی حکومت سے لوگوں نے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس کے سامنے چیلنج عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ حکومت کو اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی کیونکہ ریاست کی مالی حالت بہت خراب ہے

فائل تصویر / ڈی ڈبلیو
فائل تصویر / ڈی ڈبلیو
user

ابھے شکلا

کانگریس نے ہماچل پردیش قانون ساز اسمبلی اور راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ضمنی انتخابات میں زبردست جیت حاصل کی ہے۔ پارٹی نے ہماچل میں 68 میں سے 40 سیٹیں جیت لی ہیں – یہ ایک ایسا فرق جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کوئی چوہا جہاز سے چھلانگ نہ لگائے اور یہ کہ کمل امیت شاہ کے باغ میں ہی موجود رہے۔

پریم کمار دھومل شراب نہیں پیتا اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اب بھی چائے کے کپ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جب میں یہ لکھ رہا ہوں۔ جئے پرکاش نڈا بھی شراب نہیں پیتے لیکن انہیں اس وقت ایک یا دو پیگ کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی ہی ریاست میں الیکشن ہار گئے، جہاں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں ہر فیصلہ انہوں نے ہی کیا۔ میں نتائج کا پوسٹ مارٹم نہیں کرنا چاہتا - یہ ماہرین پر چھوڑنا بہتر ہے لیکن نتائج کے بعد کی صورتحال کا تھوڑا بہت ’فرانزک آڈٹ‘ ہونا ہی چاہیے۔

کانگریس نے بڑے اور متنوع پیمانے پر ووٹروں کی عدم اطمینان کی وجہ سے اور بی جے پی کے لوگوں کے مطالبات سے بہرے بنے رہنے کے اپنے جانے پہچانے تکبر کی وجہ سے جیت حاصل کی۔ ان مطالبات میں شامل تھے: تباہ کن ہائیڈل پراجیکٹس پر کام روکنا، امتیازی اور غیر ضروری چار لین کے منصوبوں کو روکنا، جنہوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کر دیا، وادی بلہ میں متنازعہ 'انٹرنیشنل' ہوائی اڈے پر کام ترک کرنا (سابق وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر اس پر 5000 کروڑ خرچ کرنے رضامند تھے، جبکہ انہوں نے کہا تھاک ہ ان کے پاس پرانی پنشن اسکیم کو لاگو کرنے کے لیے رقم نہیں ہے)، ان کارپوریٹس کو ریگولیٹ کرنا جو باغبانوں کی قیمت پر سیب کی تجارت کو آہستہ آہستہ ہڑپ کر رہے ہیں، مراعات اور ضوابط اور سرکاری شعبے میں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنا۔


پرانی پنشن اسکیم پر واپس آنا ایک بڑا مالی چیلنج ہوگا، خاص طور پر اس لئے چونکہ مرکز کی جانب سے تعاون حاصل کرنا مشکل ہے: اس کے لئے فنڈز کسی نہ کسی طرح تلاش کرنا ہوں گے۔ سرکاری ملازمین کی طاقتور لابی اس کے نفاذ کے لیے بے تاب ہوگی کیونکہ اس نے کانگریس کی جیت میں غالباً فیصلہ کن کردار ادا ہے۔ میں اگنی ویر یا بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے دیگر مسائل کے بارے میں بات نہیں کر رہا کیونکہ یہ بنیادی طور پر قومی پالیسی کے مسائل ہیں اور ریاستی سطح پر ان کا حل ممکن نہیں ہے۔

یہ ریاست کے لیے پریشان کن مسائل ہیں، جو قرض کے اضافی بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور کانگریس جلد ہی جان لے گی کہ تمام وعدوں کو ایک ساتھ پورا کرنا آسان نہیں ہے۔ اسے اسکیموں اور پروگراموں کی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور ان کا صحیح انتخاب کرنا ہوگا لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے عام آدمی کی فلاح و بہبود پر بھی توجہ دینی ہوگی، ٹھیکیداروں، نوکر شاہی، پارٹی فنڈ جمع کرنے والوں یا ان کے رشتہ داروں کے لیے نہیں جیسا کہ بی جے پی نے کیا۔ اسے کسی بھی منصوبے (جیسے منڈی ہوائی اڈے یا کِنّور اور لاہول سپتی ہائیڈل پروجیکٹس) کو اہمیت یا وقار کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے: ایک سیاست دان کا وقار ووٹروں کی طرف حاصل ہونے والا تحفہ ہے اور اسے واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ کسی خاص علاقے میں لوگوں کو بہترین چیز فراہم کریں اور وہ یہ بہتر جانتے بھی ہیں – مجھے لگتا ہے کہ یہ ان انتخابات کا مرکزی پیغام ہے اور اگر کانگریس اس پر قائم رہتی ہے تو وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

جئے رام ٹھاکر کی بڑی ناکامیوں میں سے ایک ان کی ڈھیلی انتظامیہ تھی جس پر وہ کبھی کنٹرول نہیں کر سکے۔ سب کچھ بیوروکریسی پر چھوڑ دینا وزیر اعلیٰ کے لیے بہتر خیال نہیں ہے۔ سول سروسز مکمل طور پر پالے ہوئے گھوڑے کی طرح ہوتی ہیں – اگر لگام تنگ ہو تو یہ بہت بہتر کام کرتی ہے۔ مشہور لیڈر ویربھدر سنگھ جیسے لیڈر اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ 6 بار وزیر اعلیٰ رہے اور اسی وجہ سے ریاست نے اتنی ترقی کی۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مداحوں کی مدد کی ہو (ایسا کون سا وزیر اعلیٰ نہیں کرتا؟) لیکن انہوں نے کبھی قابلیت کے تئیں اپنی آنکھیں بند نہیں کیں، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جن کو انہوں نے چنا وہ کام کریں۔ اس کے برعکس، جئے رام ٹھاکر نے 5 سالوں میں کئی چیف سکریٹریوں کا انتخاب کیا، جس سے ان کی غیر فیصلہ کنیت اور برے انتخاب کا پردہ فاش ہوا۔ انہوں نے قیمت ادا کی ہے اور کانگریس کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے – تمام سینئر افسروں کو اپنی پوری مدت ملازمت کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ مختلف نظریات کے حامل افسران کی کھوج بین نہیں ہونی چاہئے- زیادہ تر بیوروکریٹس اپنی تنخواہوں اور الاؤنسز اور بعد میں ملنے والی پنشن کے لیے پرعزم ہیں اور وہ دنوں میں سے کسی کو بھی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ اپنی بیوروکریسی کی بھی سنیں لیکن عوام کی بھی سنیں۔


ہم مدھیہ پردیش، راجستھان اور پنجاب میں کانگریس ارکان اسمبلی کو اپنی طرف مائل کرنے کی بی جے پی کی کوششوں کو پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ کانگریس کو بھی یقین ہو گیا ہوگا کہ بی جے پی اور نریندر مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ 8 دسمبر کو سامنے آنے والی صورتحال کو ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو سمجھ آ جاتا ہے کہ جن 3 ریاستوں میں انتخابات ہوئے تھے، ان میں سے دو ریاستوں میں بی جے پی کو شکست ہوئی ہے اور 7 میں سے 5 ضمنی انتخابات میں بھی اسے شکست ہوئی ہے۔ ادھر، رامپور میں پولنگ کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دی گئی ہے۔ بھارت جوڈو یاترا کے ذریعے فراہم کردہ رفتار کی بنیاد پر ہماچل پردیش نے 2024 کے لیے ایک لانچنگ پیڈ تیار کر دیا ہے۔ ویربھدر سنگھ دور کے بعد ریاست میں ایک نئی شروعات کا وقت آ گیا ہے۔ ’دیو بھومی‘ کے ’دیوتاؤں‘ نے پارٹی کو ’آشیرواد‘ دے دیا ہے، اب اس کے اعمال ان کی سخاوت کو درست ثابت کریں گے۔ اب کوئی دوسرا ’درشن‘ نہیں ہونے والا۔

ابھے شکلا ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اور مصنف ہیں اور یہ avayshukla.blogspot.com کے مضمون سے لئے گئے ترمیم شدہ اقتباسات ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔