آسمان کی طرف انگلی اور آنکھ سے ٹپکے اس واحد آنسو نے دھو ڈالے وہ سبھی سوال جو دنیا کنگ کوہلی پر اٹھا رہی تھی

پورا اسٹیڈیم جوش میں چیخ اٹھا، ٹی وی اسکرین سے چپکے ناظرین رقص کرنے لگے، لیکن کنگ کوہلی اپنے گھٹںوں پر بیٹھ کر کرکٹ پچ سے بات کر رہے تھے، مانو کہہ رہے ہوں کہ اس میدانِ جنگ کا میں ہی جنگجو ہوں۔

ویراٹ کوہلی جیت کے بعد جذباتی ہو گئے
ویراٹ کوہلی جیت کے بعد جذباتی ہو گئے
user

تسلیم خان

کوہلی کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور وہ سارے گلے شکوے، سوال، نصیحتیں وغیرہ اس میں دھل گئے۔ میدان پر اور میدان کے باہر بھی جس طرح کے دباؤ سے وراٹ کوہلی حال کے دنوں میں دو چار رہے تھے، اس سارے دباؤ کا جواب کنگ کوہلی نے غالباً اپنی کرکٹ زندگی کے سب سے مشکل میچوں میں سے ایک میں دے دیا تھا، اور پھر آنکھ سے بس گرنے کو بے قرار آنسو کو روکنے کی کوشش میں جب انھوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی تو مانو کھچا کھچ بھرے ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں موجود ناظرین اور دنیا بھر میں ٹی وی اسکرین پر میچ دیکھ رہے کروڑوں کرکٹ شیدائیوں کے من میں جذبات کا طوفان پھوٹ پڑا۔

آخری گیند پر یوں تو فاتح شاٹ آر اشون نے میچ کی فیصلہ کن گیند پر لگایا، لیکن اس درمیان وراٹ کوہلی گھٹنوں پر بیٹھ کر اس کرکٹ پچ کو اپنے مکے سے ٹھوک رہے تھے، مانوں اپنے اندر کے سارے سیلاب کو بس کسی طرح روک لینا چاہ رہے ہوں۔


کوہلی ایک شاندار کرکٹر ہیں اور ابھی تک ان کی کارکردگی قابل تعریف ہی کہی جائے گی۔ لیکن اتوار کو ٹی-20 عالمی کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلے گئے میچ کو ان کی سب سے بہترین پاریوں میں شمار کیا جائے گا۔ ان کے کھیل کی بات کریں تو کرکٹ کے ٹی-20 فارمیٹ کو ویسا نہیں مانا جاتا ہے جس میں کوہلی اپنا فطری کھیل کھیلتے رہے ہوں۔ انھوں نے تو ایک طرح سے اپنے کرکٹ کو آرام ہی دے دیا تھا جب ان کی کپتانی چھین لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا بھی تھا کہ اب خود کی تلاش کرنی ہے اور اس کے لیے ایک بریک لینا ہی ہوگا۔

لیکن کرکٹ کے عالمی اسٹیج پر جس حیرت انگیز، غیر تصوراتی اور ناقابل یقین اننگ کے ساتھ انھوں نے دھماکہ کیا ہے، وہ کرکٹ تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔ جیسا کہ انھوں نے خود ہی کہا کہ وہ یوں تو آسٹریلیا کے خلاف موہالی میں کھیلی گئی اپنی 52 گیندوں پر 82 رنوں کی اننگ کو بہترین مانتے رہے ہیں، لیکن آج کی اننگ کچھ خاص ہے۔ انھوں نے ناظرین اور اپنے چاہنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’آپ لوگوں نے مجھے ہر وقت ساتھ دیا ہے، اس دور میں بھی جب میرے لیے حالات بالکل برعکس ہو گئے تھے۔‘‘


وراٹ کوہلی نے تو پاکستان کے خلاف میچ میں پوری ٹیم کی ذمہ داری تنہا ہی نبھا دی۔ وہ کریز پر تھے اور دوسرے سرے پر ایک کے بعد ایک ان کے ساتھی ٹیم کو بھنور میں چھوڑ کر پویلین لوٹ رہے تھے۔ ایسے میں جب ہاردک پانڈیا میدان پر آئے تو کوہلی بہت پریشر میں دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستانی گیندباز ہاردک پانڈیا کو کوئی شاٹ کھیلنے ہی نہیں دے رہے تھے۔ ایک وقت ہندوستان کو جیت کے لیے ضروری رَن ریٹ 10 سے بھی اوپر پہنچ گیا تھا۔ اسی دوران کوہلی نے طے کیا کہ بس بہت ہوا۔ انھوں نے کمان اپنے ہاتھ میں لی اور دنیا کو دکھایا کہ کرکٹ کا کنگ کون ہے۔

لیکن ڈوبتا اسکور کارڈ، آؤٹ ہوتے ساتھی اور پاکستانی گیندبازوں کے حاوی ہوتے تیور، حالات ایسے تھے کہ پاور پلے ختم ہو چکا تھا اور اس کے بعد کے 4 اوور میں ہندوستان صرف 14 رن ہی بنا سکا تھا۔ اسی دوران وہ لمحہ بھی آ گیا جب 10 اوور کے بعد فیزیو کو میدان میں بلانا پڑا، جنھوں نے پانڈیا کے گھٹنے کا علاج کیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سب کو معلوم تھی کہ ایک دن پہلے سے ہی پانڈیا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تو سوال یہی سب کے ذہن میں اور سب سے زیادہ کوہلی کے ذہن میں تھا کہ رن آخر بنیں گے کیسے!


میدان میں موجود ناظرین، ٹی وی پر ٹکٹکی لگائے کروڑوں کرکٹ شیدائیوں اور کمنٹری باکس میں لگاتار تجزیہ کر رہے ماہرین کا بھی یہی سوال تھا کہ آخر رن کیسے بنیں گے اور انھیں بنانے کی شروعات کون کرے گا۔ پانڈیا یا کوہلی؟ ویسے امیدیں پانڈیا سے زیادہ تھیں، کیونکہ آئی پی ایل کی کپتانی کرنے کے بعد ان میں کچھ سنجیدگی آئی ہے اور وہ یوں ہی اپنا وکٹ نہیں گنواتے ہیں اور کچھ ٹھہر کر بھی کھیلنے لگے ہیں۔

ماہرین یہ بھی باتیں کر رہے تھے کہ کوہلی جارحیت دکھاتے ہوئے کمان سنبھالیں گے یا پھر پانڈیا کو ہی آگے بڑھائیں گے۔ مزید ایک اوور ایسے ہی نکل جائے گا اور پاکستان کے تیز گیندباز باقی کام کر دیں گے۔ ایسے میں جو کچھ کرنا ہے، ابھی طے کرنا ہوگا۔


اسی درمیان 12ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر پانڈیا نے محمد نواز کی گیند پر چھکا لگا کر سبھی سوالوں کا جیسے جواب دے دیا۔ امیدیں زندہ ہو گئیں، اور جواب یہی ملا کہ پانڈیا ہی بیڑا پار لگائیں گے۔ لیکن کوہلی تو کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھے۔ وہ اپنے بلے سے بھی گیند کو بغیر باؤنڈری چھوئے باؤنڈری کے پار بھیجنا چاہتے تھے۔ پانڈیا نے اس دوران تین چھکے لگا دیئے تھے۔

کوہلی نے بھی اپنی باری کا انتظار کیا اور اگلے اوور میں شاندار باؤنڈری لگائی۔ کھیل کچھ قابو میں آیا۔ کوہلی اور پانڈیا خراب گیندوں کا انتظار کر رہے تھے اور اِدھر ضروری رن ریٹ بڑھ رہا تھا۔ 17ویں اوور میں نسیم نے تو جیسے دونوں کو باندھ کر رکھ دیا اور 6 گیندوں پر ہندوستان کے اسکور بورڈ پر صرف 6 رن ہی جڑ سکے۔


اب حالات یہ تھے کہ 18 گیندیں بچی تھیں اور ہدف 48 رن دور تھا۔ یعنی ہر اوور میں کم از کم 16 رن کی ضرورت تھی۔ شاہین آفریدی کی پہلی ہی گیند پر کوہلی نے مڈ وکٹ میں شاندار چوکا لگایا۔ اس کے بعد تھوڑا صبر رکھتے ہوئے کوہلی نے ایک ہی ہاتھ سے کور میں چوکا مار دیا۔ لیکن اتنے بھر سے کام نہیں چل رہا تھا۔ ایسے میں کوہلی نے لانگ آن پر شاٹ کھیلا اور رن لینے کے لیے دوڑے۔ وہ دوسرا رن بھی لینا چاہتے تھے، لیکن ہاردک اپنے گھٹنے کی وجہ سے نہیں دوڑ سکے۔ اس سے کوہلی کو کچھ مایوسی ہوئی۔ یہیں سے کوہلی نے طے کر لیا کہ اب جو بھی کرنا ہے، انھیں ہی کرنا ہے۔ پھر زوردار بلے بازی کرتے ہوئے کوہلی نے 18ویں اوور میں ہندوستان کے لیے 17 رن جوڑے۔

اگلے اوور میں پانڈیا کو گیند تو اچھی ملی، لیکن شاٹ میں شاید اتنا دم نہیں تھا اور نتیجتاً گیند سیدھی مڈ وکٹ پر کھڑے پاکستانی کھلاڑی کے پاس تک ہی پہنچی تھی۔ صرف ایک ہی رن ملا۔ اگلی تین گیندیں شارٹ پچ تھیں۔ کوئی اور موقع ہوتا اور میچ پر ہندوستان کی گرفت ہوتی تو پانڈیا انھیں باہر کا راستہ دکھا دیتے، لیکن یہاں کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔


19ویں اوور میں جس طرح کی گیند آئی اسے کھیلنے کے لیے تو صرف کوہلی جیسا دَم اور ہنر چاہیے۔ کوہلی نے آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیند کو بس چھو بھر دیا اور گیند 6 رن کے لیے باؤنڈری کو لانگھتے ہوئے میدان کے باہر تھی۔ اوور کی آخری گیند بہت شاندار تھی، لیکن کوہلی نے اسے فلک کر دیا جو 6 رن دے کر گیا، اور ہندوستانی کرکٹ شیدائیوں میں جوش کی ایک لہر دوڑ گئی۔

پھر آیا میچ کا سب سے تفریح بھرا آخری اوور۔ کریز پر پانڈیا تھے اور پاکستان یہی چاہتا بھی تھا شاید۔ کیونکہ پانڈیا اسپن گیندبازوں کو نہیں کھیل پا رہے تھے۔ آخری اوور میں ہندوستان کو جیت کے لیے 16 رن چاہیے تھے۔ لیکن اوور کی پہلی ہی گیند پر پانڈیا آؤٹ ہو گئے۔ ان کی جگہ آئے دنیش کارتک۔ انھوں نے آتے ہی ایک رن لیا۔ اور کریز پر اب وراٹ کوہلی تھے۔ ہدف اب بھی دور تھا۔ تیسری گیند پر کوہلی نے صبر سے کام لیا اور دو رن بنائے۔ اب بھی کوہلی ہی کریز پر تھے۔


چوتھی گیند پر وراٹ نے پل شاٹ کھیل کر گیند کو ناظرین کے درمیان پہنچا دیا۔ اسی درمیان امپائر نے گیند کے ’نو بال‘ ہونے کا اشارہ کر دیا، کیونکہ گیند کمر سے اوپر تھی۔ امپائر کے فیصلے سے پاکستانی ٹیم کچھ ناراض نظر آئی اور میچ تھوڑی دیر رک گیا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ نو بال نہیں تھی۔ لیکن امپائر کا فیصلہ نہیں بدلا۔ اب بھی میچ کی 3 گیندیں باقی تھیں۔ نواز نے اگلی گیند ڈالی جس پر فری ہٹ ہونا تھا، لیکن گیند وائیڈ تھی اور فری ہٹ برقرار رہا۔ اگلی گیند پر کوہلی کلین بولڈ ہو گئے، لیکن چونکہ یہ فری ہٹ تھا اس لیے کوہلی آؤٹ نہیں ہوئے۔ وکٹ سے لگنے کے بعد گیند تھرڈ مین کی طرف چلی گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوہلی اور کارتک نے تین رن لے لیے۔

اب کریز پر کارتک تھے۔ پانچویں گیند کو انھوں نے سویپ کرنا چاہا، لیکن ناکام ہو گئے اور پاکستانی وکٹ کیپر رضوان نے گیند اٹھا کر اسٹمپ پر مار دیا اور کارتک آؤٹ ہو گئے۔ اب صرف ایک گیند بچی تھی، جیت کے لیے دو رن چاہیے تھے۔ محمد نواز نے اگلی گیند وائیڈ پھینک دی اور دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہو گیا۔ اگلی گیند اور میچ کی آخری گیند پھینکی گئی تو آر اشون نے اسے آسانی سے مڈ آف کی طرف اٹھا کر کھیل دیا اور ایک بے حد زبردست میچ میں ہندوستان کو جیت مل گئی۔


اور پھر اس کے ساتھ ہی کوہلی کے حصے میں آ گیا وہ لمحہ جسے انھوں نے اپنے ہنر، عزائم اور جنون کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ پورا اسٹیڈیم جوش میں چیخ رہا تھا، ٹی وی اسکرین سے چپکے ناظرین رقص کرنے لگے، لیکن کنگ کوہلی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر پچ سے بات کر رہے تھے، مانو کہہ رہے ہوں کہ اس میدانِ جنگ کا جنگجو میں ہی ہوں، اور میں واپس آ گیا ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔