پنکج ادھاس نے غزل گائیکی کو نئی جہت عطا کی... یوم پیدائش پر خاص

پنکج اب تک 40 البم کیلئے اپنی سریلی آواز پیش کر چکے ہیں۔ ان میں نشہ، حسرت، مہک، گھونگٹ، نشہ 2، افسانہ، آفرين، نشیلا، بہت مقبول ہیں۔ پنکج آج بھی اپنی سریلی آواز سے سامعین کو محظوظ کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ممبئی: موسیقی کی دنیا میں پنکج ادھاس ایک ایسے غزل گلوکار ہیں جو اپنی گائیکی سے گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے مداحوں کو مسحور کرتے آئے ہیں۔

پنکج کی پیدائش 17 مئی 1951 کو گجرات کے راجکوٹ کے قریب جیت پور میں ایک زمیندار گجراتی خاندان میں ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی منهر ادھاس جانے مانے گلوکار ہیں۔ گھر میں موسیقی کا ماحول تھا لہذا پنكج کی دلچسپی بھی موسیقی کی جانب ہو گئی۔

محض سات سال کی عمر سے ہی پنکج گانا گانے لگے۔ ان کے اس شوق کو ان کے بڑے بھائی منهر نے پہچان لیا اور انہیں اس راہ پر چلنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ منهر اکثر موسیقی سے منسلک پروگرام میں حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے پنکج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

ایک بار پنكج کو ایک پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں انہوں نے ’’اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی‘‘ گیت گایا۔ اس گیت کو سن کر سامعین بہت متاثر ہوئے۔ان میں سے ایک نے پنکج کو خوش ہوکر 51 روپے بھی دیئے۔ اسی دوران پنکج راجکوٹ کی موسیقی تھیٹر اکیڈمی سے جڑ گئے اور طبلہ بجانا سیکھنے لگے۔

کچھ برس بعد پنکج کا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی آ گیا۔ پنکج نے گریجویشن ممبئی کے مشہور سینٹ زیوئیر کالج سے کیا ۔ اس کے بعد ان کی دلچسپی موسیقی کی جانب ہو گئی اور انہوں نے استاد نورنگ جی سے موسیقی کی تعلیم لینی شروع کر دی۔

پنکج کے فلمی کیریئر کا آغاز 1972 میں آئی فلم ’’کامنا‘‘سے ہوا لیکن کمزور اسکرپٹ اور ہدایت کی وجہ سے فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ’’غزل گلوکار‘‘ بننے کے مقصد سے پنکج نے اردو کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی۔

سال 1976 میں پنکج کو کینیڈا جانے کا موقع ملا اور وہ اپنے ایک دوست کے یہاں ٹورنٹو میں رہنے لگے۔ انہی دنوں اپنے دوست کی سالگرہ کی تقریب میں پنکج کو گانے کا موقع ملا۔ اسی تقریب میں ٹورنٹو ریڈیو میں ہندی کے پروگرام پیش کرنے والے ایک شخص بھی موجود تھے۔ انہوں نے پنکج ادھاس کی صلاحیت کو پہچان لیا اور انہیں ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں گانے کا موقع دیا۔

تقریبا دس ماہ تک ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں گانے کے بعد پنکج اس کام سے بھی بیزار ہوگئے۔ اس دوران کیسٹ کمپنی کے مالک ميرچندانی سے ان کی ملاقات ہوئی اور انہیں اپنے نئے البم’’آہٹ‘‘ میں پہلی مرتبہ گانے کا موقع دیا۔ یہ البم سامعین میں کافی مقبول ہوا۔

سال 1986 میں آئی فلم’’نام‘‘ پنکج کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔ يو ں تو اس فلم کے تقریباً تمام نغمے سپر ہٹ ثابت ہوئے لیکن پنکج ادھاس کی مخملی آواز میں ’’چٹھی آئی ہے وطن سے چھٹی آئی ہے‘‘ گیت آج بھی سننے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد پنکج کو کئی فلموں میں گانے کا موقع ملا۔ ان فلموں میں گنگا جمنا سرسوتی، بہار آنے تک،تھانیدار، ساجن، دل آشنا ہے، پھر تیری کہانی یاد آئی، یہ دل لگی، مہرا، میں کھلاڑی تو اناڑی،منجدھار، گھات اور یہ ہے جلوہ اہم ہیں۔

پنکج کے گائے نغموں اور غزلوں کی حساسیت ان کی ذاتی زندگی میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ وہ ایک سادہ دل اور نرم طبعیت کے انسان بھی ہیں جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک بار ممبئی کے ناناوتی ہسپتال سے ایک ڈاکٹر نے پنکج کو فون کیا کہ ایک شخص کے گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا ہے اور اس کی آپ سے ملنے کی تمنا ہے، اس بات کو سن کر پنکج فوری طور پر اس شخص سے ملنے ہسپتال گئے اور نہ صرف اس کو گانا گا کر سنایا بلکہ اپنے گائے گانوں کا کیسٹ بھی دیا۔بعد میں پنکج کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے گلے کا آپریشن ہوگیا اوروہ اس بیماری سے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا ہے تو پنکج بہت خوش ہوئے۔

پنکج کو اپنے کیریئر میں کافی عزت و احترام حاصل ہوا۔ انہیں بہترین غزل گلوکار، كے ایل سہگل ایوارڈ، ریڈیو لوٹس ایوارڈ، اندرا گاندھی پریادرشنی ایوارڈ، دادا بھائی نوروجی ملینیم ایوارڈ اور آرٹسٹ ایوارڈ حاصل ہوئے۔ ساتھ ہی گائیکی کے میدان میں ان کی قابل ذکر خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں 2006 میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔