آئیے ڈالتے ہیں 7 ایسی فلموں پر نظر، جو آپ کے اندر بھر دے حب الوطنی کا جذبہ

کتابوں سے بڑھتی ہوئی اس دوری کے دور میں ضروری ہے کہ حب الوطنی پر مبنی فلموں کے ذریعہ ہم جدوجہد آزادی کو یاد کریں اور ان لوگوں کا احسان مانیں جن کی وجہ سے ہم نے آزاد فضاؤں میں آنکھیں کھولیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

ہم اپنے ملک ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ہم ان قربانیوں کو بھولتے جا رہے ہیں۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ بھی چھوڑ دیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ہمیں مجاہدین آزادی کی مشقتیں اور صعوبتیں بھی یاد نہیں۔ کتابوں سے بڑھتی ہوئی اس دوری کے دور میں ضروری ہے کہ حب الوطنی پر مبنی فلموں کے ذریعہ ہم جدوجہد آزادی کو یاد کریں اور ان لوگوں کا احسان مانیں جن کی وجہ سے ہم نے آزاد فضاؤں میں آنکھیں کھولیں۔

اگر ہم حب الوطنی سے سرشار فلموں کی بات کریں تو بالی ووڈ میں اس کی ایک ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔ ’جھانسی کی رانی‘، ’پھر صبح ہوگی‘، ’مدر اِنڈیا‘، ’نیا دور‘، ’جاگرتی‘، ’آنند مٹھ‘، ’ہم ہندوستانی‘، ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘، ’سَن آف انڈیا‘، ’لیڈر‘، ’شہید‘، ’سکندر اعظم‘، ’سات ہندوستانی‘، ’اُپکار‘، ’فرض‘، ’حقیقت‘، ’پریم پجاری‘، ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’للکار‘، ’پورب اور پچھم‘، ’کرانتی‘، ’گاندھی‘، ’دیش پریمی‘، ’کرما‘، ’پرہار‘، ’کہرام‘، ’ترنگا‘، ’سرفروش‘، ’بارڈر‘، ’دی لیجیڈ آف بھگت سنگھ‘، ’ٹینگو چارلی‘، ’اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو‘، ’چک دے‘، ’منگل پانڈے‘، ’ایل او سی کارگل‘، ’لکشیہ‘، ’ہیروز‘ ، ’نیتا جی سبھاش چندر بوس‘، ’زمین‘، ’دیوار‘، ’مشن کشمیر‘، ’غدر: ایک پریم کتھا‘، ’ماں تجھے سلام‘، ’پنجر‘، ’رنگ دے بسنتی‘... ایک طویل سلسلہ ہے، اور سب کے بارے میں یہاں پر بات کرنا ممکن نہیں۔ آئیے ہم نظر ڈالتے ہیں حب الوطنی سے سرشار 7 اہم فلموں پر۔


آنند مٹھ (1882)

بنکم چندر چٹرجی کے ناول ’آنند مٹھ‘ کے پلاٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیمن گپتا کی ہدایت کاری میں بنی یہ فلم اس لحاظ سے بہت عمدہ تھی کہ اس میں ملک کی آزادی کے لیے سنیاسیوں کی کاوشوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ فلم کا آغاز ہوتا ہے 1770 کی قحط سالی سے جب لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کے لیے مجبور ہو گئے تھے۔ چونکہ فلم مغربی بنگال کے ارد گرد بنی ہے اس لیے بنگال کے نواب میر جعفر کی عیاشیوں اور انگریز کی غلامی کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت غریبوں پر انگریزوں کے مظالم اور راجہ مہندر و رانی کلیانی کی بے بسی کے درمیان سنیاسیوں کا انگریزوں کے خلاف علم بلند کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی، کیونکہ ظلم کوئی کب تک برداشت کر سکتا ہے۔ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ فلم میں ستیانند کا کردار بہت اہم ہے جس نے انگریز مخالف لوگوں کا ایک گروپ تیار کر رکھا تھا اور انھیں سنیاسی بنایا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ سنیاسی ہی آزادی دلائیں گے۔ فلم میں سنیاسیوں کو ڈاکو کی شکل میں پیش کیا گیا ہے لیکن وہ حب الوطن ہیں۔ انگریز ان سنیاسیوں کے خلاف اقدام بھی کرتے ہیں لیکن آزادی کے متوالے کہاں ماننے والے تھے، انھوں نے ہندوستان کو اپنی ماں تصور کیا تھا اور اس ماں کی آزادی کے لیے وہ سینہ سپر تھے۔ اس فلم نے جنگ آزادی میں سنیاسیوں کے کردار کو اُجاگر کیا جو کسی دیگر فلم میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بنکم چندر چٹرجی کا تحریر کردہ ’وندے ماترم‘ گیت بھی ’آنند مٹھ‘ کی ہی دین ہے جو آج ہندوستان کا قومی ترانہ ہے۔

اپکار (1967)

’اُپکار‘ فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ بھارت (منوج کمار) اور پورن (پریم چوپڑا) دو بھائی ہیں لیکن غریبی کے سبب دونوں کا تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ بھارت نے قربانی دیتے ہوئے پورن کو شہر پڑھنے کے لیے بھیج دیتا ہے اور خود کھیتی کرنے لگتا ہے۔ لیکن پورن جب تعلیم حاصل کر واپس آتا ہے تو وہ بہت بدل چکا ہوتا ہے اور غلط طریقے سے پیسہ بنانے اور غریبوں کو بے وقوف بنانا شروع کر دیتا ہے۔ فلم میں چرن داس (مدن پوری) کا کردار دونوں بھائیوں کے درمیان تلخی پیدا کرنے کا کام کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پورن جائیداد میں تقسیم کی بات کرتا ہے۔ بھارت اس بات سے رنجیدہ ہو کر سب کچھ چھوڑ کر ہند-پاک جنگ میں شامل ہونے کے لیے سپاہی بن جاتا ہے۔ پوری فلم ملک میں کسان اور جوان کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہے اور لوگوں میں بھائی چارہ کا پیغام بھی دیتی ہے۔


پورب اور پچھم (1970)

یہ فلم ہندوستان اور برطانیہ کی تہذیبوں اور رہن سہن کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ منوج کمار کی ہدایت کاری میں بنی اس فلم کا آغاز 1942 کی غلامی کے دور سے ہوتا ہے اور پھر ملک کی آزادی کے بعد کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ بھارت یعنی منوج کمار تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہندوستانیوں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں اور ہیچ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہرنام (پران) جو کہ ہندوستانی ہے اور آزادی سے قبل انگریزوں کے لیے مخبری کا کام کرتے ہوئے ہندوستانیوں کے ساتھ غداری کرتا ہے، وہ بھی برطانیہ میں اس طرح زندگی گزارتا ہے جیسے اسے ہندوستانیوں سے کوئی محبت نہیں۔ فلم کی کہانی کا دلچسپ واقعہ وہ ہے جب برطانیہ میں بھارت کمار کے سامنے ہی لوگ ہندوستان اور ہندوستانیوں کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ ایسے موقع پر ’ہے پریت جہاں کی ریت سدا‘ نغمہ کے ذریعہ بھارت کمار برطانوی اور وہاں بسے ہندوستانی لوگوں کو ہندوستان کی اصل حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ اس کے بعد جب برطانوی ماحول میں رَچی بسی پریتی (سائرہ بانو) کو بھارت کے اصولوں اور اس کی شخصیت سے محبت ہو جاتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو مجبوراً بھارت کو تیار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ پریتی کو انڈیا میں رہنا قبول نہیں۔ بھارت ایسی صورت میں پریتی سے گزارش کرتا ہے کہ وہ اِنڈیا میں کچھ دن گزارے، اگر اسے ٹھیک نہ لگے تو واپس دونوں برطانیہ میں آ کر رہیں گے۔ دراصل بھارت کو اپنے ملک سے محبت تھی اور اسے یقین تھا کہ یہاں کی مٹی سے پریتی کو بھی پیار ہو جائے گا اور فلم کے آخر میں ہوا بھی یہی۔ پریتی گاؤں کے لوگوں کی محبت اور اپنے پن سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اِنڈیا کی ہی ہو کر رہ گئی۔

کرانتی (1981)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ہدایت کاری بھی منوج کمار نے ہی کی اور وہ حب الوطنی پر مبنی فلموں کے ’سپر اسٹار‘ کہے جانے لگے۔ ’کرانتی‘ کی کہانی ہے 1825 سے 1875 کے غلام ہندوستان کی جس میں انگریزوں نے ہندوستانیوں پر قہر برپا کر رکھا تھا۔ رام گڑھ کا راجہ مارا جا چکا تھا اور اس کا الزام سانگا (دلیپ کمار) پر ڈالا گیا تھا۔ لیکن سانگا کسی طرح گرفت سے چھوٹ جاتا ہے اور ’کرانتی‘ کے نام سے ایک گروپ بناتا ہے جو ملک کی آزادی کے لیے لڑائی شروع کر دیتا ہے۔ دھیرے دھیرے ’کرانتی‘ کے نام سے مختلف علاقوں میں کئی گروپ بن جاتے ہیں جس سے انگریزوں اور انگریزوں کا ساتھ دینے والے بزدل ہندوستانیوں کے لیے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بھارت (منوج کمار) اور کریم خان (شتروگھن سنہا) تو آزادی کے متوالے تو تھے ہی، یووراج شکتی (ششی کپور) بھی انگریزوں کی عیاری کو سمجھ جاتا ہے اور ’کرانتی‘ کا ساتھ دیتا ہے۔ سب مل کر ملک کے غداروں اور انگریزوں سے زبردست مقابلہ کرتے ہیں۔ انگریزوں کا پرچم نیچے کرتے ہیں اور کرانتی کا پرچم لہراتے ہیں۔ آخر میں بھارت اور کریم خان جیسے مجاہدین آزادی شہید ہو جاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے ایک نئی نسل چھوڑ جاتے ہیں تاکہ ’کرانتی‘ جاری رہے۔


ترنگا (1993)

فلم ’ترنگا‘ کی ہدایت کاری میہل کمار نے کی تھی جس میں راج کمار اور نانا پاٹیکر نے اپنی اداکاری سے روح پھونک دی۔ اس فلم میں راج کمار نے بریگیڈیر کا اور نانا پاٹیکر نے پولیس انسپکٹر کا کردار نبھایا ہے۔ فلم کی طاقت اس کے ڈائیلاگ ہیں جو اس وقت نوجوانوں کے زبانوں پر عام ہو گیا تھا۔ فلم میں جب راج کمار انٹری لیتے ہیں تبھی وہ گینڈا سوامی سے کہتے ہیں ’’نہ تلوار کی دھار سے، نہ گولیوں کی بوچھار سے، بندہ ڈرتا ہے تو بس پروردگار ہے۔‘‘ نانا پاٹیکر کا بھی ایک ڈائیلاگ خوب مشہور ہوا، جس میں وہ گینڈا سوامی سے کہتے ہیں ’’یاد ہے میں نے کہا تھا کہ یہی 1500 کی نوکری کرنے والا ایک دن تجھے 150 کا کفن پہنائے گا۔‘‘

یہ فلم دراصل ایک خطرناک مجرم پرلے ناتھ گینڈا سوامی کے منصوبوں کو ناکم کرنے کی کہانی ہے۔ اس کے لیے بریگیڈیر سوریہ دیو سنگھ یعنی راج کمار کو مقرر کیا جاتا ہے۔ اس مشن میں نانا پاٹیکر راج کمار کی مدد کرتے ہیں۔ کس طرح وہ گینڈا سوامی سے ملک کو بچاتے ہیں، اور اس دوران انھیں کیا کیا مشکلیں درپیش ہوتی ہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنی پڑے گی۔


بارڈر (1997)

1990 کی دہائی میں جب ’پرہار‘، ’کہرام‘ اور ’ترنگا‘ جیسی اینگری ینگ مین ٹائپ کی فلمیں منظر عام پر آئیں، تو ایسے وقت میں نانا پاٹیکر اور راج کمار جیسے ہیرو نے نوجوانوں میں جوش بھر دینے والے کردار نبھائے۔ اس درمیان ’بارڈر‘ ایک ایسی فلم کی صورت میں سامنے آئی جس نے لوگوں کی آنکھیں نم کر دیں۔ جے پی دتہ کی ہدایت کاری میں بنی یہ فلم 1971 میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم کی خوبی یہ ہے کہ کہانی صرف سرحد پر جنگ کے حالات کو پیش نہیں کرتی ہے بلکہ فوجیوں کے خاندان اور جذباتی رشتوں کو بھی بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ دھرم ویر (اکشے کھنہ) کی اپنی ماں (راکھی) اور معشوقہ کملا (پوجا بھٹ) سے انسیت کا معاملہ ہو یا لالا راجپوت (سنیل شیٹی) کا سہاگ رات کے اگلے ہی دِن جنگ کے مدنظر ڈیوٹی جوائن کرنے کی مجبوری، متھرا داس (سدیش بیری) کی بزدلی کے حب الوطنی میں بدلنے کا معاملہ ہو یا ائیر فورس افسر اینڈی (جیکی شراف) کی بے بسی، سب کچھ اتنے اچھے انداز میں دکھایا گیا ہے کہ ناظرین کی پلکیں بھی نہیں جھپکتیں اور آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ میجر کلدیپ کی شکل میں سنی دیول کے کردار کو تو فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ محض 120 جوانوں کے ذریعہ ٹینک سے مزین پاکستانی فوج کا سامنا کرنے کی منظرنگاری جے پی دتہ نے بہت خوب کی ہے۔ پاکستانی فوج میدان چھوڑ کر بھاگتے ہیں لیکن دھرم ویر، سنیل شیٹی اور متھرا داس کی شہادت ان کے گھر والوں کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن جاتی ہے۔ اسی لیے تو فلم کے آخر میں کہا گیا ہے کہ:

’’جنگ تو چند روز ہوتی ہے — زندگی برسوں تلک روتی ہے‘‘

لگان (2001)

جب وطن پرستی سے متعلق اچھی فلمیں بننے کا دور ختم ہوتا محسوس ہوا تو 2001 میں آسوتوش گواریکر کی ہدایت کاری میں فلم ’لگان‘ منظر عام پر آئی۔ اس فلم نے نوجوانوں میں حب الوطنی کا ایسا جذبہ جگایا کہ وہ ’او متوا سن متوا تجھ کو کیا ڈر ہے رے، اپنی یہ دھرتی ہے اپنا امبر ہے رے‘ نغمہ پر سنیما ہال میں ہی جھومنے پر مجبور ہو گئے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے فلم کی اسکرپٹ اس لگان کے ارد گرد لکھی گئی ہے جو انگریز ہندوستانی کسانوں سے لیا کرتے تھے۔ لیکن فلم کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ لگان معاف کرنے کے لیے انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان کرکٹ میچ کا کھیل ہوا۔ ایک طرف انگریز کرکٹ میں ماہر تھے تو دوسری طرف ہندوستانیوں کو نہ ہی بیٹ پکڑنا آتا تھا اور نہ ہی گیند۔ پھر بھی بھُون (عامر خان) کی قیادت میں جس طرح کی کرکٹ فلم میں کھیلا گیا اس نے آخر لمحے تک ناظرین کو سیٹ سے باندھے رکھا۔ فلم کے آخر میں جب ہندوستانی ٹیم فتحیاب ہوتی ہے اور انگریزوں کو لگان معاف کرنا پڑتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک غلام ملک کو آزادی مل گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔