درد بھرے نغموں کے شہشاہ، کے ایل سہگل

موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ ان کی جائے پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جموں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے۔ کچھ کا خیال ہے کہ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ سہگل نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کا تعلق موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے تھا۔ جب وہ جموں میں تھے تو اپنی والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن گایا کرتے۔

موسیقی اور گائکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا نہ ہی انہوں نے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سہگل ایک آزاد انسان تھے جن کے لئے درباروں کے آداب سے مطابقت پیدا کرنا یقیناً مشکل تھا۔

چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ کی سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوگئی۔ سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو تھیٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ ملازمت پر رکھ لیا۔

نیو تھیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار موجود تھے جن میں بورل سب سے سینئر تھے اور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔نیو تھیٹر کی فلموں سے ہی سہگل کو ہندوستان میں شہرت حاصل ہوئی۔ نیو تھیٹر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں زندہ جاوید بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔

نیو تھیٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ تین فلمیں بنائیں جو مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔

1934 میں نیو تھیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔

دیو داس سرت چندر چٹّرجی کا شہرہ آفاق ناول ہے جس نے نہ صرف بنگالی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا بلکہ ہندوستان کے اعلی گھرانوں اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات اور ان کی الجھنوں کو زبان دیدی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولرزم اور انسانی مساوات کے سنہرے اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہے تھے اور دوسری جانب خود ان کے اپنے سماج میں ان اصولوں کو بڑی بیدردی سے روندا جا رہا تھا۔

دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ساری خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود محض اس بنیاد پرگھروالوں کی مخالفت کا شکار ہوجاتا ہے کہ اسے ایک چھوٹی ذات کی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے۔دیوداس پہلے بنگالی میں بنائی گئی تھی، بنگالی فلم میں بروا نے دیوداس کا کردار ادا کیا۔اس فلم میں سہگل نے ایک چھوٹا سا رول ادا کیا تھا اور دو نغمے بھی گائے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے ہندی میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

سہگل نیو تھیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، اسٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور کئی کامیاب بنگالی فلمیں شامل ہیں، بمبئی کا رخ کیا اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہو گئے یہاں انہوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔

سہگل نے فلم تان سین کے بعد، جو 1944 میں ریلیز ہوئی، 1947 تک سات فلموں میں کا م کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکرہے۔شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے۔

موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ کہتے ہیں وہ ایک بار استاد فیاض علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا ’تم اتنا جانتے ہو کہ میں تمہیں اور کیا سکھا سکتا ہوں‘ یہ بھی مشہور ہے کہ ان کے کسی گیت سے استاد عبد الکریم خان صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں انعام کے طور پر سو روپے کا منی آرڈر بھیج دیا۔

سہگل نے فلمیں نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختر بھی جو غزل کی گائکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سہگل کی بڑی مداح تھیں۔

سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر میوزک ڈائریکٹر سہگل سے کہتا کہ ریکارڈنگ سے پہلے شراب پی لیا کرو اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن خورشید انور نے انہیں شراب کے بغیر ہی ریکارڈ کیا۔ یہ فلم کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمے کافی مقبول ہوئے اور خورشید انور کو کسی ادارے کی جانب سے اس سال کے بہترین موسیقی کار کا انعام سے بھی نوازا گیا۔

سہگل جنوری 1947 کو جلندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کرگئے۔ انہیں جگر کا کوئی عارضہ ہو گیا تھا۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمرمحض 42 رہی ہوگی۔ یہ کوئی بہت زیادہ عمر نہیں ہے لیکن اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لیے جو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔