کمال امرہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم ’پاکیزہ‘

’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔

کمال امرہوی، تصویر یو این آئی
کمال امرہوی، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

17 جنوری یوم پیدائش کے موقع پر خاص

ممبئی: کمال امروہوی کا نام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے حالاںکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امرہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا بہترین ڈائیلاگ، موسیقی، نغمات اور میناکماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کئے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔ اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم ’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو اس فلم کے سبھی نغمات پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ….. اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا... انتہائی مقبول ہوا۔ دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑے۔ آج اس فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیما اسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961 میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔ کمال امروہوی 17 جنوری 1917 کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ ایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسید کر دیا۔ غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھر چھوڑ کر لاہور بھاگ گئے۔


لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کرلیا تھا۔ انہوں نے خوب محنت کی اور قدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ وہ انتہائی ذہین تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض 18 سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کر دی۔ اخبار کے مدیر اُن کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانہ میں انہوں نے 300 روپے ان کا مشاہرہ مقرر کر دیا۔ یہ اس وقت ایک خطیر رقم شمار کی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک اخبار میں کام کرنے کے بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور وہ کلکتہ آگئے اور وہاں سے پھر بمبئی کا رخ کیا۔

لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لائے۔ وہ یہاں آکر فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ احمد عباس تک رسائی حاصل کی۔ ان کی کہانی ’سپنوں کا محل‘ سے فلم ساز و ہدایت کار اور معروف کہانی نویس خواجہ احمد عباس بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس پر فلم بنانے کا ارادہ کرلیا۔ اس کے لئے فلم ساز بھی تلاش کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کمال امروہوی کو معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس کھانے کے لئے پیسہ تھا نہ سر چھپانے کے لئے گھر۔ ان کے ستارے گردش میں تھے۔ اسی دوران انہیں خبر ملی کہ سہراب مودی کسی نئی اور اچھوتی کہانی کی تلاش میں ہیں۔ وہ فوراً ان کے پاس پہنچے اور انہیں تین سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا۔ ان کی کہانی پر مبنی فلم پکار (1939) انتہائی سپر ہٹ رہی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو فلموں میں چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی، اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کئے۔


فلم ’محل‘ کمال امروہوی کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہ فلم تجسس اور رومانس سے بھری تھی۔ فلم ساز اشوک کمار نے اس کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کمال امروہوی کو سونپی۔ بہترین گیتوں اور موسیقی کے سبب یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے بعد سے ہی فلموں میں سسپنس کا رواج چل پڑا۔ فلم کی زبردست کامیابی نے مدھوبالا اور لتامنگیشکر کو نئی شناخت فراہم کی۔ اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہوی نے 1953 میں کمال پکچرس اور 1958میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کرایک آرٹ فلم ’’دائرہ‘‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی دوران فلم ساز و ہدایت کار کے آصف اپنی اہم فلم ’مغل اعظم‘ بنانے میں مصروف تھے۔ اس کے ڈائیلاگ وجاہت مرزا لکھ رہے تھے۔ کے آصف نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ڈائیلاگ لکھنے والے کی ضرورت ہے جس کے تحریر کردہ ڈائیلاگ ناظرین کے دماغ میں برسوں تک گونجتے رہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کمال امروہوی کا انتخاب کیا اور انہوں نے چار ڈائیلاگ لکھنے والوں میں شامل کرلیا۔ ان کے تحریر کردہ ڈائیلاگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عاشق و معشوق خط و کتابت میں ان کا استعمال کرتے تھے۔ اس فلم میں بہترین ڈائیلاگ لکھنے کے لئے انہیں فلم فیئر انعام سے بھی نوازا گیا۔

کمال امروہوی نے فلم جیلر (1938)، میں ہاری (1940)، بھروسہ (1940)، مذاق (1943)، پھول (1945)، شاہ جہاں (1946)، محل(1949)، دائرہ(1953)، دل اپنا اور پریت پرائی(1960)مغل اعظم (1960) پاکیزہ (1971)، شنکر حسین (1971) اور رضیہ سلطان (1983) فلموں کے لئے کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرپٹ لکھی۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کیں، لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا، پوری یکسوئی، لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی، جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی، رضیہ سلطان، کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیمامالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔


جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیمااسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔ لیکن کمال امروہوی کی اپنی تیسری بیوی میناکماری سے علاحدگی کے سبب اس کی فلم سازی 1961تا 1969 تعطل کا شکار رہی۔ بعد ازاں انہوں نے میناکماری کو کسی طرح اس فلم میں کام کرنے پر راضی کیا۔ بالآخر 1971 میں یہ فلم مکمل ہوئی اور فروری 1972 میں ریلیز ہوئی۔

یاد رہے کہ کمال امروہوی نے تین شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی کا نام بانو تھا جو نرگس کی ماں جدن بائی کی نوکرانی تھیں۔ بانو کی استھما سے موت کے بعد انہوں نے محمودی سے شادی کی۔ تیسری شادی انہوں نے اداکارہ میناکماری سے کی جو عمر میں ان سے پندرہ برس چھوٹی تھیں۔ دونوں کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی اور ان میں پیار پروان چڑھا یہاں تک کہ دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ اس وقت کمال امروہوی چوبیس سال کے تھے اور مینا کماری 19 سال کی۔ لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی اور دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔ دراصل مینا کماری کمال امروہوی کی صلاحیتوں کی معترف تھیں، اسی لئے وہ ان کے قریب ہوئیں۔ لیکن جیسے جیسے مینا کماری خود کفیل ہوتی گئیں، کمال امروہوی کا سحر بھی ٹوٹنے لگا۔ دونوں میں تکرار معمول بن گیا۔ اس تناؤ کے سبب فاصلوں میں اضافہ ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔


فلم ’پاکیزہ‘ کی تکمیل کے بعد فلم ساز و مکالمہ نگار کمال امروہوی کا کچھ عرصہ کے لئے فلموں سے ربط منقطع رہا۔ بعد ازاں 1983 میں انہوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور اپنی ہدایت کاری میں ’رضیہ سلطان‘ بناکر فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا۔ یہ فلم حالاںکہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہوئی کیوںکہ اس کے مکالموں میں فارسی کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا جن سے عام لوگ متاثر نہیں ہوسکے۔ لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ فارسی داں ہیں، انہوں نے اس فلم کو ہٹ فلموں کی طرح دیکھا۔ مشہور اداکارہ ہیمامالنی نے اس فلم میں رضیہ سلطان کا کردار بخوبی نبھایا اور حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے کس طرح مکالموں کی ادائیگی کی کیوںکہ اس کے مکالموں میں فارسی الفاظ کی کثرت تھی۔ بہرحال ہیمامالنی بہترین اداکارہ ہیں۔ ان سے ایسی توقع کی جاسکتی تھی اور انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ یہ عظیم الشان فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ کمال امروہوی اس سے بے حد مغموم ہوئے۔ کچھ دنوں تک وہ صدمے میں رہے پھر دوبارہ حوصلہ کرکے انہوں نے ایک اور فلم ’آخری مغل‘ بنانے کا ارادہ کیا لیکن ان کا فلم بنانے کا یہ خواب حقیقت میں نہیں بدل سکا اور یہ عظیم فن کار 11فروری 1993 کو خالق حقیقی سے جا ملا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔