رشی کیش مکھرجی: زیادہ فلموں کے بجائےکم اور اچھی فلمیں بنانے پر یقین رکھتے تھے

رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی سفر میں سات بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’انورادھا‘ کے لئے انہیں بہترین فلمساز کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر سوشل میڈیا</p></div>

فائل تصویر سوشل میڈیا

user

یو این آئی

رشی کیش مکھرجی کو بالی ووڈ کے ایسے ’اسٹار میکر‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جن کا دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر، جیہ بھادوڑی جیسے فلمی ستاروں کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔رشی کیش کی پیدائش 30 ستمبر 1922 کو کلکتہ میں ہوئی تھی اور کلکتہ یونیورسٹی سے ہی انہوں نے گریجویشن مکمل کی ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے ریاضی اور سائنس کے استاد کے فرائض انجام دیئے۔ 40 کی دہائی میں رشی کیش مکھرجی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز نیو تھیٹر میں بطور کیمرہ مین کیا۔ اس تھیٹر میں ان کی ملاقات معروف فلم ایڈیٹر سبودھ متر اسے ہوئی۔ ان کے ساتھ رہ کر رشی کیش مکھرجی نے فلم ایڈیٹنگ کی باریکیاں سیکھیں۔ اس کے بعد وہ فلمساز ومل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔رشی کیش نے ومل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ اور ’دیو داس‘ کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ بطور ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز سال 1957 میں ریلیز ہوئی فلم ’مسافر‘ سے کیا۔ دلیپ کمار، سچترا سین اور کشور کمار جیسے بڑے اداروں کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔سال 1959 میں رشی کیش کو راج کپور کی فلم ’اناڑی‘ کی ہدایت کاری کرنے کا موقع ملا۔ ان کی یہ فلم باکس آف پر سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد رشی کیش مکھرجی فلمی صنعت میں بطور ہدایت کار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

سال 1960 میں رشی کیش مکھرجی کی ایک اور فلم ’انوراگ‘ ریلیز ہوئی۔ بلراج ساہنی اور لیلا نائیڈو کی اداکاری والی اس فلم کی کہانی ایک ایسی شادی شدہ عورت کی ہے جس کا شوہر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اسے چھوڑکر اپنے گاؤں چلا جاتا ہے۔ویسے تو یہ فلم ناکام ثابت ہوئی لیکن نیشنل ایوارڈ کے ساتھ ہی اسے برلن فلم فیسٹول میں بھی اسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔سال 1966 میں آنے والی فلم ’آشیرواد‘ رشی کیش مکھرجی کے کیریئر کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی جو سپرہٹ رہی تھی۔ اس فلم کے ذریعہ رشی کیش نے نہ صرف ذات پات اور زمینداری کے رواج پر سخت وار کیا تھا بلکہ ایک باپ کے درد کو سلور اسکرین پر پیش کیا تھا ۔ اس فلم میں اشوک کمار پر فلمایا گیا گیت ’ریل گاڑی، ریل گاڑی‘اُن دنوں کافی مقبول ہوا تھا۔


سال 1969 میں ریلیز ہوئی فلم ’ستیہ کام‘ کا شمار رشی کیش مکھرجی کی ہدایت کاری والی اہم فلموں میں ہوتا ہے۔ دھرمیندر اور شرمیلا ٹیگور کے اہم کرداروں والی اس فلم کی کہانی ایک ایسے نوجوان کی زندگی پر مبنی ہے جس نے آزادی کے بعد کے ملک کا جو تصور کیا تھا ویسا نہیں ہوتا۔ یہ فلم بھی ناکام رہی لیکن فلم بینوں کا ماننا ہے کہ یہ فلم رشی کیش مکھرجی کی بہترین فلمیں میں سے ایک ہے۔

جیہ بھادوڑی کے فلمی کیریئر میں فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی فلموں کا اہم رول رہا ہے۔ جیہ کو پہلا بڑا موقع سال 1971 میں رشی کیش کی فلم ’گڈی‘ سے ہی ملا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو فلمیں دیکھنے کی شوقین ہے اور اداکار دھرمیندر سے محبت کرتی ہے۔ اپنے اس کردار کو جیہ بھادوڑی نے اپنے چلبلے انداز میں ادا کیا ۔ ان کا یہ کردار ناظرین کو آج بھی یاد ہے۔فلم گڈی کے بعد جیہ بھادوڑی رشی کیش کی پسندیدہ اداکارہ بن گئی تھیں۔ رشی کیش جیہ بھادوڑی کو اپنی بیٹی کی طرح مانتے تھے اور انہوں نے جیہ کے ساتھ باورچی، ابھیمان، چپکے چپکے اور ملی جیسے فلمیں بنائیں۔


سال 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آنند‘ کا شمار رشی کیش کی سپرہٹ فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں راجیش کھنہ نے آنند کا مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کے ایک منظر میں راجیش کھنہ کے ذریعہ ادا کردہ مکالمہ ’بابو موشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ،کون جانے کب کس کی ڈور کھنچ جائے یہ کوئی نہیں بتا سکتا‘کافی مقبول ہوا تھا۔سال 1973 میں رشی کیش کی فلم ابھیمان ریلیز ہوئی۔ یہ فلم بھی کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم میں امیتابھ بچن نے ایک ایسے گلوکار شوہر کا کردار ادا کیا تھا جو اپنی گلوکارہ بیوی کی کامیابی سے جلنے لگتا ہے۔

سال 1975 میں آنے والی چپکے چپکے رشی کیش کے کیریئر کہ اہم فلم رہی۔ اس دور میں امیتابھ اور دھرمیندر کو لیکر صرف لڑائی اور ایکشن سے بھرپور فلمیں بنائی جاتی تھیں لیکن رشی کیش نے اس روش سے ہٹ کر ان دونوں کے ساتھ مزاحیہ فلم چپکے چپکے بناکر سب کو حیران کردیا۔ سال 1979 میں رشی کیش کی مزاحیہ فلم ’گول مال‘ ریلیز ہوئی۔یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ جب کبھی بھی بہترین مزاحیہ فلموں کا ذکر ہوتا ہے تو رشی کیش کی فلم گول مال کا ذکر ضرور آتا ہے۔ یہ فلم آج بھی ناظرین کو ہنسانے پر مجبور کردیتی ہے۔


سال 1988 میں ریلیز ہوئی فلم ’ناممکن‘ کے ناکام ہونے کے بعد رشی کیش مکھرجی کو محسوس ہوا ہے فلمی دنیا میں پیشہ ورانہ طرز کچھ زیادہ ہی حاوی ہوگیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً 10 برس تک فلموں سے دوری اختیار کرلی۔سال 1998 میں انہوں نے انل کپور کو لیکر ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ بنائی۔ بدقسمتی سے یہ فلم بھی باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔ رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی سفر میں سات بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’انورادھا‘ کے لئے انہیں بہترین فلمساز کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلموں میں نمایاں تعاون کے پیش نظر انہیں فلمی صنعت کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم وبھوشن سے بھی سرفراز کیا گیا۔

رشی کیش مکھرجی شمار بالی وڈ کے ان چند فلمسازوں میں ہوتا ہے جو زیادہ فلموں بنانے کے بجائےکم اور اچھی فلمیں بنانے میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی سفر میں 13 کی فلمسازی اور 43 فلموں کی ہدایت کاری کی ہے۔ فلمسازی کے علاوہ انہوں نے کچھ فلموں کی ایڈیٹنگ اور کئی کی کہانی اور اسکرین پلے بھی لکھے۔تین دہائیوں تک اپنی فلموں سے ناظرین کی تفریح کرنے والے عظیم فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے 27 اگست 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔