خواتین

ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم خواتین کے لیے وبالِ جان! ملازمت اور شادی کی راہ میں حائل...مرنال پانڈے

ہندوستان میں صنفی بنیاد پر روزگار کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 10 میں سے 7 گریجویٹ نوجوان ملازمت حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ 10 میں سے صرف 3 گریجویٹ خواتین کو ہی ملازمت حاصل ہو رہی ہے

ہندوستانی خواتین / Getty Images
ہندوستانی خواتین / Getty Images 

سی بی ایس ای کے نتائج آ چکے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لڑکیوں نے لڑکوں سے 3.5 فیصد زیادہ کامیابی حاصل کر کے بازی مار لی۔ عقل سلیم کہتی ہے کہ اس سے لڑکیوں کے بہتر روزگار اور بہتر دولہا حاصل کرنے کے مواقع میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ایک طے شدہ مدت کے وقفہ سے جانے والے حکومتی سروے (پی ایل ایف ایس) 2020-21 کے نتائج اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان میں سماج کی ساخت اور مذہب، خاندان اور رسومات کے بارے میں رجعت پسندانہ سوچ میں اضافہ ہوا ہے۔ لہذا، صنف پر مبنی روزگار کے اعداد و شمار سے انکشاف ہوتا ہے جہاں 10 میں سے 7 گریجویٹ نوجوانوں کو ملازمت حاصل ہو جاتی ہے، وہیں بیچلر ڈگری یافتہ 10 میں سے صرف 3 خواتین کو ہی پچھلے ایک سال میں ملازمت حاصل ہو سکی۔

Published: undefined

وجہ کیا ہے؟ ایک تو کورونا کے دور میں مردوں کے مقابلہ میں خواتین چھنٹنی کی زیادہ شکار ہوئیں۔ ویسے بھی ان میں سے بیشتر یومیہ اجرت یا کنٹریکٹ پر زرعی مزدوری یا تعمیراتی یا کپڑے کی چھوٹی فیکٹریوں میں کام کر رہی تھیں۔ یہ ایسے دھندے تھے جن میں سے بیشتر ایک بار بند ہوئے تو پھر نہیں کھل سکے! دیہاتوں میں بڑی تعداد میں شہری مزدوروں کی نقل مکانی کی وجہ سے وہاں زراعت یا منریگا کا محدود کام بھی مردوں کو مل گیا۔

Published: undefined

دوسری وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد زیادہ تر گریجویٹ خواتین کو ایسی ملازمتیں نہیں مل سکیں جن کی منظوری شوہر، والد اور گھر والوں کی طرف سے مل جاتی ہو۔ سیاست دانوں کے قدیم روایت کا رونا رونے کی وجہ سے ہمارے روایتی بشمول تعلیم یافتہ گھرانوں میں اس سوچ کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ اچھے گھر کی بہوؤں کو ترجیح گھر، بچوں اور ساس سسر کو دینی چاہئے اور بیوی کا باہر جاکر کام کرنا اس کے گھر کے مردوں کی نااہلی کی علامت ہے۔ ہم متوسط ​​طبقے کی پڑھی لکھی لڑکیوں میں روایتی عبادت اور پوجا پاتھ، سہاگ سے متعلق علامات کے پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس میں میڈیا کے ذریعے مثالی عورت کی سناتنی ہندو شبیہ کو فروغ دینے والے سیریلز اور مباحثوں کا ہاتھ بھی کم نہیں ہے۔

Published: undefined

محققین کو 2018 سے ہی یہ اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے کہ ملازمت کے شعبے میں تعلیم یافتہ خواتین کی حصہ داری کم ہو رہی ہے۔ کورونا کے بعد بڑھتی مہنگائی سے والدین کا ہاتھ بھی تنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں اچھی ملازمت حاصل کرنے کے لیے گریجویٹ ڈگری یا خصوصی مہارت کا ڈپلومہ ضروری ہے، وہاں کئی ہائی اسکول، انٹر پاس لڑکیاں کو شادی تک گھر پر بیٹھانے کا چلن بڑھ گیا ہے۔

Published: undefined

ادھر، آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے شہری شادیوں کے بازار سے متعلق ایک دلچسپ تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس کے تحت طویل عرصے سے خواتین ورکرز کی محنت پر کام کرنے اور بل میلنڈا گیٹس اسکالرشپ پر تحقیق کرنے والی دیوادھر نے یہ جاننے کے لیے ایک دلچسپ تجربہ کیا کہ شادیوں کے بازار میں خواتین کی ڈگریاں اور ان کی پیسے کمانے کی صلاحیت سے انہیں بہتر گھر اور رشتہ مل رہے ہیں یا نہیں؟ تحقیق کے ایک حصے کے طور پر شادی کرانے والی ایک بڑی ویب سائٹ پر ڈالنے کے لیے 20 جواں سال خواتین کی پروفائلز تیار کی گئیں۔ ان پروفائلز میں عمر، طرز زندگی کے خیالات اور اسی طرح کی کھانے کی عادات درج کی گئیں لیکن بعض میں یہ بھی بتایا گیا کہ کیا یہ لڑکیاں تنخواہ دینے والے کام کر رہی ہیں یا نہیں؟ شادی کے بعد بھی کام کرنے کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے؟ وہ موجودہ ملازمت سے کتنی تنخواہ حاصل کر رہی ہیں؟ اس کے بعد ان کی پروفائل ہر ذات کے مناسب لڑکوں کو بھیجی گئی، جنہیں سائٹ کے ذریعے اہل قرار دیا گیا تھا۔

Published: undefined

محقق کو نوجوانوں کی طرف سے موصول ہونے والے ردعمل حیران کن ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے تقریباً تمام ذاتوں اور مذاہب کے مردوں کی شادی اور مثالی بیوی کی خصوصیات کے حوالہ سے سوچ دقیانوسی ہے۔ پہلی رائے یہ سامنے آئی کہ مردوں کی رائے میں جو لڑکیاں گھر سے باہر کام نہیں کرتیں وہ کام کرنے والی لڑکیوں کی نسبت شادی کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہیں۔ وہ خواتین جو اس وقت کام کر رہی ہیں لیکن یقین رکھتی ہیں کہ شادی کے بعد اگر ان کے شوہر چاہیں تو وہ نوکری چھوڑ دیں گی، ان کا نمبر دوسرا ہے۔ ایسی جواں سال خواتین جن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ شادی کے بعد کام جاری رکھنے کی خواہشمند ہیں، ان کے منتخب کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔

Published: undefined

یہ بات بھی دلچسپ تھی کہ پروفائلز میں وہ لڑکیاں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ زیادہ معاوضے والی نوکریوں پر کام کرتی ہیں، اور کہا گیا تھا کہ وہ شادی کے بعد بھی ملازمت جاری رکھنا چاہتی ہیں، وہ کام نہ کرنے والی لڑکیوں سے زیادہ مقبول ثابت ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ مرد زیادہ کمانے کی صلاحیت کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پروفائل کے مطابق جن لڑکیوں کی تنخواہ ان کی اپنی تنخواہ سے زیادہ تھی، ان کے تئیں مردوں کا رجحان 15 فیصد کم تھا۔

Published: undefined

تحقیق کے نتائج کے مطابق ہندوستانی معاشرے کی 99 فیصد لڑکیوں کے لیے صحیح عمر میں صحیح شوہر کی تلاش ان کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اس پس منظر میں مردوں میں ایسی سوچ بڑی حد تک پڑھی لکھی خواتین کے لیے شادی کے بعد کام پر جانے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ جب لڑکیاں یہ جانتی ہیں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ زیادہ تعلیم حاصل کر کے انہیں ایک بہتر شوہر ملے گا، یا یہ کہ ملازمت کا ہونا لڑکوں کے لیے دلہن کے انتخاب میں رکاوٹ ہے، تو بہت سی لڑکیاں اور ان کے گھر والے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کو جاری رکھنے میں ہچکچانا شروع کر دیتے ہیں۔

Published: undefined

ان میں سے بہت کی لڑکیوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نہیں، بلکہ شاید کے بعد شوہر کے ساتھ غوروخوض کر کے ہی اپنا کیریئر بنانے کے باے میں غور کریں۔ فی الحال اس دلچسپ تحقیق کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے دیوادھر ملازمت کے شعبے میں رہنے والی شادی اور نوجوان لڑکیوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کو وسیع اور دریافت کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان کی تمام معلومات کی روشنی میں آج جو سیاست دان اور میڈیا کے بابا 'لڑکیاں نے سی بی ایس ای میں پھر بازی ماری' یا 'بیٹی پڑھاؤ' جیسے نعروں پر خوش ہو رہے تھے، انہیں خواتین کارکنوں کی کنڈلی دوبارہ پڑھنا شروع کر دینا چاہیے!

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined