سماج

کم عمر ’شہید‘: یمن میں کم عمر فوجیوں کی بھرتی

یمن میں لوگ اپنے بچوں کو نام نہاد سمر کیمپ میں بھیجتے ہیں۔ اس کیمپ میں بچوں کو لڑائی کی تربیت دی جاتی ہے اور سکھایا جاتا ہے کہ انہیں جہاد کیوں کرنا چاہیے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس  

اس طرح کے کئی ایک نام نہاد 'سمر کیمپس‘ میں شرکت کے بعد سمیر میں یہ خواہش جاگ اٹھی کہ اسے حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر یمنی خانہ جنگی میں شریک ہونا چاہیے۔

Published: undefined

ان کیمپوں کے تربیتی مراحل کے دوران 15 سالہ سمیر نے حوثی باغیوں کو یمنی حکومت کے بارے میں اپنا نقتہ نظر بیان کرتے ہوئے سنا۔ ساتھ ہی مذہبی رہنما، زیر تربیت نوجوانوں کو جہاد کی اہمیت کے بارے میں بھی بتاتے اور اس بات کی ضرورت کے بارے میں بھی کہ وہ کیوں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے کہ عالمی طور پر منظور شدہ یمنی حکومت کے خلاف ان کی لڑائی میں خدا کی رضا شامل ہے۔

Published: undefined

اس سب حوصلہ افزائی اور حق پر ہونے کے یقین کے بعد سمیر میں کم عمری کے باوجود لڑائی میں شرکت کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔

Published: undefined

سمیر کی والدہ اور والد نے اپنے بیٹے کی سمر کیمپ میں شرکت کو تو برداشت کر لیا مگر جب سمیر نے انہیں بتایا کہ وہ لڑائی میں شریک ہونا چاہتا ہے، تو اس کے والد کے مطابق خاندان نے اس کی اس خواہش کی شدید مخالفت کی۔ سمیر کے والد اپنا اصل نام دینا نہیں چاہتے تھے۔

Published: undefined

تاہم سمیر کی ضد کے سامنے آخر کار وہ ہار گئے۔ وہ یہ بات مانتے ہیں کہ اس اجازت دینے کے پیچھے کسی حد تک یہ حقیقت بھی پنہاں تھی کہ سمیر کو بطور فوجی پیسے ملیں گے اور باقاعدگی سے ہر مہینے اپنے خاندان کو پیسے بھیجے گا، جس کی یمن کے طویل بحران کے سبب اس خاندان کو از حد ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ ہر چند مہینے کے بعد اپنے خاندان سے ملنے کے لیے واپس بھی آ سکتا تھا۔

Published: undefined

میت کی واپسی

پھر ایک دن خوفناک خبر ملی۔ سمیر مارا گیا تھا۔ یہ ٹین ایجر لڑائی کے دوران مارا گیا تھا اور حوثی باغیوں کے دیگر ارکان اس کی میت کو اس کے خاندان تک پہنچانے آئے تھے۔ زندگی سے عاری سمیر کے ماتھے پر ایک کپڑا بندھا ہوا تھا جس پر تحریر تھا 'شہید‘۔

Published: undefined

یمنی دارالحکومت صنعاء کے اس علاقے میں صرف سمیر کا خاندان ہی ایسا واحد خاندان نہیں ہے جسے ایسی خبر ملی۔ اسی علاقے کے تین مزید لڑکے بھی جن کی عمریں 15 اور 16 سال تھیں وہ بھی لڑائی میں مارے گئے۔ عماد، یوسف اور محمد، بمباری کے دوران مارے گئے اور ان کے جسم کے باقی ماندہ جو حصے بھی بچے وہ ان کے ساتھی جنگجوؤں نے ان کے گھر والوں تک پہنچا دیے۔

Published: undefined

کم عمر بچوں کو بھرتی کرنا بلا شک و شبہ انسانی حقوق کی ان سخت ترین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے جو یمن کی خانہ جنگی میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

Published: undefined

رواں برس مئی میں بچے اور مسلح تنازعات کے موضوع پر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2020ء کے دوران 211 بچوں کو یمنی جنگ میں لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ ان میں سے 134 لڑکوں اور 29 لڑکیوں کو حوثی باغیوں نے بھرتی کیا۔

Published: undefined

حوثی باغیوں نے یہ کہتے ہوئے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے خلاف اپنا دفاع کیا کہ یہ رپورٹ ان کے دشمنوں، امریکا اور خلیجی ریاستوں نے تیار کی ہے۔

Published: undefined

دونوں فریق نوعمر فوجیوں کی بھرتی کے ذمہ دار

لیکن یہ صرف حوثی باغی ہی نہیں ہیں جو بچوں کو بطور فوجی بھرتی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمنی فوج میں بھی 34 کم عمر فوجی شامل تھے۔ 14 دیگر بچے یمنی خانہ جنگی میں شریک دیگر تنظیموں نے بھی بھرتی کیے۔

Published: undefined

دو تنظیموں SAM فار رائٹس فار اینڈ لبرٹیز اور یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس مانیٹر‘ کی ایک تحقیق کے مطابق یمنی حکومت کے اتحادی گروپوں نے بھی بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا، خاص طور پر جنوبی صوبوں تائز، لہج اور ابیان میں۔

Published: undefined

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کم عمر فوجی جو حکومتی فورسز کا حصہ بنتے ہیں وہ وہاں مختلف طریقوں سے پہنچتے ہیں۔ اس بارے میں مختلف افواہیں موجود ہیں مگر ڈی ڈبلیو ان میں سے کسی کی بھی تصدیق کرنا ممکن نہ ہو سکا۔

Published: undefined

ایک کہانی یہ بھی ہے کہ ایک فوجی نے اپنے بیٹے کو اس لیے لڑائی کے لیے بھیجا کیونکہ وہ بچے کی تنخواہ کا متمنی تھا۔ ایک اور کہانی یہ بھی ہے کہ بڑے بھائی نے بظاہر اپنے چھوٹے بھائی کو بھرتی ہونے پر راضی کیا۔ جبکہ ایک اور معاملے میں جنگ میں مرنے والے ایک فوجی کا بیٹا اپنے والد کی جگہ لینا چاہتا تھا تاکہ خاندان کے اخراجات کا بندوبست کیا جا سکے۔

Published: undefined

پڑھائی کے ذریعے پراپیگنڈا

یہ وہ معاملہ ہے جہاں حوثی باغی واقعی الگ ہوتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم تنظیم SAM فار رائٹس اینڈ لبرٹیز کے سربراہ توفیق الحمیدی نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں گروپوں کے بھرتی کرنے کے طریقہ کار کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ الحمیدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت ہی کم بچے ایسے ہیں جو یمنی حکومتی فوج میں شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے سے بھی اکثر کو گارڈ وغیرہ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔

Published: undefined

مگر حوثیوں کے حوالے سے صورتحال بالکل ہی مختلف ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے فروری 2021ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2014ء میں یمنی تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے حوثی باغیوں نے 10 ہزار سے زائد بچوں کو بطور فوجی بھرتی کیا۔

Published: undefined

اس اسٹڈی کے مطابق، ''حوثیوں نے جانتے بوجھتے تعلیمی نظام کو تشدد کو ہوا دینے اور طلبہ کو اپنے افکار کی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کیا۔۔۔ اس مقصد کے لیے ایسے لیکچرز کا استعمال کیا گیا جس میں فرقہ وارانہ پراپیگنڈا اور فوجی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔‘‘

Published: undefined

یمن میں بچوں کے حقوق کی تنظیم SEYAJ کے مطابق حوثی باغی سمر کیمپ کے نام سے چھ ہزار سے زائد تربیتی مراکز چلا رہے ہیں جہاں بچوں کی اس طرح کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ہر ایک کیمپ میں کسی ایک وقت میں کم سے کم بھی 100بچے موجود ہیں۔ یہاں بچوں کو لڑائی کی تربیت دے کر انہیں لڑنے کے لیے فرنٹ لائنز پر بھیجا جاتا ہے۔

Published: undefined

ایک نسل جو اپنا مقصد کھو چکی ہے

اس طرح چھوٹے بچوں کو بطور فوجی بھرتی کرنا ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔ یہ کہنا ہے کہ یمن کے سابق وزیر برائے انسانی حقوق محمد عسکر کا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کی طرف سے چلائے جانے والے سمر کیمپوں بچوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے: ''ان کے دماغوں کو نفرت سے اور مرگ بر امریکا جیسے نعروں سے بھرا جا رہا ہے۔‘‘ عسکر کے بقول، ''ہم ان بچوں کو ایک عام معاشرے میں واپس کس طرح ضم کر سکیں گے۔‘‘

Published: undefined

یہ رپورٹ ابتدائی طور پر عربی زبان میں شائع ہوئی۔ کہانی کے مصنف احمد عمران ایک فرضی نام ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ادارتی ٹیم کو مصنف کے اصل نام کا معلوم ہے تاہم اس کی سلامتی کو لاحق خطرات کے سبب اس کا اصل نام یہاں نہیں دیا جا رہا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined