سماج

سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی توہین منصوبہ بند مہم کا حصہ ہے

بھارت میں مسلم خواتین کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنانے کی مہم میں خاصے پڑھے لکھے اور جدید تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں، جو انتہا پسند خیالات پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔

بھارت: سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی توہین منصوبہ بند مہم کا حصہ ہے
بھارت: سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی توہین منصوبہ بند مہم کا حصہ ہے 

مسلم خواتین کو نشانہ بنانے والے سوشل میڈیا ایپ بُلّی بائی اور سلّی ڈیلز کیس کی جانچ کے دوران ممبئی اور دہلی پولیس نے اب تک جن چار افراد کو گرفتار کیا ہے، انہیں سوشل میڈیا پر "ٹریڈز" (Trads)کے نام سے جانے جانے والے گروپس کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔

Published: undefined

'ٹریڈز' دراصل "ٹریڈیشنلسٹس" کا مخفف ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب روایت پسند ہوتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس گروپ کی سرگرمیاں کسی روایت کی پاسداری یا اسے فروغ دینے پر نہیں بلکہ ہندوتو کے انتہاپسند نظریات کے فروغ پر مرکوز ہیں۔

Published: undefined

پولیس نے اب تک جن چار نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں ایک کمپیوٹر انجینیئر اور دوسرا کمپیوٹر انجینیئرنگ کے دوسرے سال کا طالب علم ہے۔ جبکہ دیگر ملزمین کی عمریں بھی 18 سے 21 برس کے درمیان ہیں۔

Published: undefined

کون ہیں ٹریڈز؟

بھارت میں متعدد صحافی "ٹریڈز" پر ایک طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کے ہزاروں اکاؤنٹس ہیں اور ان میں سے کئی ایک کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ٹوئٹر پر ان میں سے شاید ہی کوئی بلیو ٹک والا تصدیق شدہ اکاؤنٹ ہو گا لیکن اس کے باوجود ان میں سے کئی اکاؤنٹس کے ٹوئٹس کو کچھ مشہور شخصیات لائک اور ری ٹوئٹ کرتی رہتی ہیں۔

Published: undefined

صحافی نیل مادھو گزشتہ پانچ برس سے ان "ٹریڈز" کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ سائبر دھمکی اور سوشل میڈیا پر پریشان کرنے کے لیے نہایت منظم طریقے سے کام کرتے ہیں۔

Published: undefined

نیل مادھو کا کہنا تھا کہ اگر انہیں آپ کو آن لائن نشانہ بنانا ہو تو یہ اپنے گروپس میں نہایت تفصیل سے اس کا منصوبہ بنائیں گے اور پھر بڑی تعداد میں ایک ساتھ آپ پر حملہ کر دیں گے۔

Published: undefined

یہ "ٹریڈز" بالخصوص مسلمانوں، دلتوں، مسیحیوں اور سکھوں کے خلاف نہ صرف نفرت پھیلاتے ہیں بلکہ بڑے سرگرم طریقے سے تشدد کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ خود بھی قتل، ریپ اور ہر طرح کے تشدد کرنے کی کھلے عام دھمکی دیتے ہیں۔

Published: undefined

نیل مادھو کا کہنا تھا کہ ان کے خیالات اتنے انتہاپسند ہیں کہ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے علاوہ کئی مرتبہ بی جے پی پر بھی دلتوں اور مسلمانوں کے تئیں 'نرم' رویہ اپنانے کا الزام لگا دیتے ہیں اور نکتہ چینی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بعض اوقات وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نہیں بخشتے۔

Published: undefined

اعتراف جرم

صحافی نیل مادھو اور "ٹریڈز" کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے دیگر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ذات پات کے معاملے میں ان کے خیالات صرف ہندوؤں میں نچلی ذات کے سمجھے جانے والے دلتوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ دراصل ہندوؤں میں سب سے اعلی ذات کے سمجھے جانے والے برہمن کی نسلی برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ نیل مادھو کے مطابق ان کے خیالات بڑی حد تک "نازی" خیالات سے ملتے ہیں۔

Published: undefined

وشو ہندو پریشد جیسی شدت پسند ہندو تنظیم (وی ایچ پی) کے بعض عہدیدار اس کا اعتراف کرنے میں جھجھک بھی محسوس نہیں کرتے۔

Published: undefined

وی ایچ پی کے یوتھ ونگ بجرنگ دل کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،"یہ بات درست ہے کہ ایسا ہوتا ہے کیونکہ مسلم خواتین ترقی پسند نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اسے میں کوئی خراب بات نہیں ہے۔"

Published: undefined

ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما تاہم اس میں ان کی پارٹی سے وابستہ افراد کے ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

Published: undefined

بی جے پی کے رکن پارلیمان لوکیش چٹرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بُلّی بائی اور سلّی ڈیلز جیسے واقعات بہت غلط ہیں۔ چٹرجی کا کہنا تھا،"اس معاملے میں تاہم مذہب اور دائیں بازو کے افراد کو ملوث کرنا درست نہیں ہے کیونکہ دائیں بازو کے افراد ایسا نہیں کرتے۔"

Published: undefined

تمام طرح کے سوشل میڈیا پر سرگرم

"ٹریڈز" صرف ٹوئٹر پر ہی نہیں بلکہ فیس بک، ٹیلی گرام اور ریڈاٹ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی پوری طرح سرگرم ہیں، جہاں یہ نہ صرف نفرت آمیز باتیں کرتے ہیں بلکہ ایسی زبان اور گرافکس کا استعمال کرتے ہیں، جو انتہائی تضحیک آمیز اور مجرمانہ ہوتی ہیں۔

Published: undefined

یہ لوگ مخالف نظریات رکھنے والوں کو بالعموم نشانہ بناتے ہیں۔ ویب سائٹ 'نیوز لانڈری' کے لیے کام کرنے والے صحافی پرتیک گوئل کا کہنا تھا کہ سن 2020 میں ٹوئٹر پر @TIinexile کے نام سے ایک اکاؤنٹ اور اس کو فالو کرنے والوں نے بنگلور کی سینیئر پولیس افسر ڈی روپا کو نشانہ بنایا تھا۔

Published: undefined

پولیس کارروائی کے بعد ٹوئٹر نے اس اکاؤنٹ کو معطل کر دیا لیکن اس کے بعد اسی یوزر نے @BharadwajSpeaks کے نام سے ایک اور اکاؤنٹ بنا لیا۔ چند ہی گھنٹوں میں اس اکاؤنٹ کو ایک لاکھ سے زیادہ فالوورز مل گئے۔ اسی اکاؤنٹ نے بعد میں سابق گورنر سوراج کوشل کو بھی ٹوئٹر پر نشانہ بنایا۔

Published: undefined

’’ٹریڈز‘‘ ایک دوسرے سے مربوط

نیل مادھو نے مزید بتایا کہ 'ٹریڈز' سوشل میڈیا پر اپنی شناخت بھلے ہی راز میں رکھتے ہوں لیکن وہ ایک دوسرے سے اچھی طرح سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کو چہروں اور ناموں سے جانتے ہیں۔

Published: undefined

پرتیک گوئل بھی کہتے ہیں کہ بے نام اکاؤنٹس کے پیچھے کون شخص ہے یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور مستقل طور پر ایک دوسرے کے رابطے میں رہتے ہیں۔

Published: undefined

اس کا مطلب یہ ہے کہ 'ٹریڈز' صرف ایک آن لائن نیٹ ورک نہیں ہے بلکہ ایک آف لائن نیٹ ورک بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کی مجرمانہ سرگرمیاں آخر کس طرح کھلے عام ہو رہی ہیں؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتیں؟

Published: undefined

پرتیک گوئل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلی بائی کیس میں گرفتار کیے گئے نیرج بشنوئی اور چند دیگر لوگوں کے خلاف کچھ لوگوں نے پونے پولیس اور گجرات پولیس میں شکایت کی لیکن دونوں مقامات پر پولیس نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

Published: undefined

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ٹریڈز' اکاؤنٹس کے سلسلے میں ٹوئٹر کو بھی کئی بار رپورٹ کی جا چکی ہے۔ زیادہ شکایتیں موصول ہونے پر ٹوئٹر ان اکاؤنٹس کو معطل کر دیتا ہے۔ لیکن یہ نئے نام سے دوبارہ سرگرم ہو جاتے ہیں۔

Published: undefined

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان باتوں کے مدنظر 'ٹریڈز' کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کا جواب پولیس انکوائری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مثلاً ایسے لوگوں کا کیا واقعی کوئی منظم نیٹ ورک ہے؟ کیا اس نیٹ ورک کا کوئی سرغنہ ہے؟ اگر ہے تو کون ہے؟ کیونکہ بلّی بائی کیس کے بعد چھ ماہ قبل کے سلّی ڈیلز کیس میں اب پہلی گرفتاری ہوئی ہے۔ دہلی پولیس نے گو کہ کمپیوٹر انجینیئر اومکاریشور ٹھاکر کو سلّی ڈیلز کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے تاہم لوگوں کو اس پر یقین نہیں ہو رہا ہے۔ ان کہنا ہے کہ بڑی مچھلی کو بچانے کے لیے ایک چھوٹی مچھلی پکڑی گئی ہے۔ (جاوید اختر(چارو کارتیکے کے ساتھ)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined