سماج

مذاق اڑانا مہنگا پڑا ان خواتین کو 

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو خواتین اویس نامی ایک شخص کو بلا کر اسے انگریزی میں چند جملے بولنے کے لیے کہتی ہیں، جس میں ناکامی پر یہ خواتین اس کا مذاق اڑاتی ہیں۔

’کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے اب‘
’کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے اب‘ 

پاکستان میں دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے علاوہ ٹوئیٹر پر اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے 'ہیش ٹیگ بائیکاٹ کنولی‘۔ اس ٹرینڈ کی وجہ بدھ 20 جنوری کی شام سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو بنی جس کا دورانیہ تو محض ایک منٹ اور اٹھارہ سیکنڈز ہے مگر اس میں مختلف احساسات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں دو خواتین جو خود کو عُظمیٰ اور دیا کے نام سے ویڈیو میں متعارف کراتی ہیں، انگریزی زبان بولنے کی صلاحیت پر کس طرح احساس تفاخر کا شکار ہیں۔ تو دوسری طرف احساس ندامت یا شرمندگی بھی دیکھی جا سکتی ہے جو اویس کے نام سے متعارف کرائے جانے والے شخص کے لہجے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

Published: undefined

ویڈیو میں ہے کیا؟

Published: undefined

اس ویڈیو کلپ میں، جسے بظاہر کسی چوتھے شخص نے موبائل فون سے ریکارڈ کیا ہے، عظمیٰ نامی خاتون دیا نامی خاتون کا تعارف کرانے کے بعد بتاتی ہیں کہ وہ کنولی ریستوران میں موجود ہیں اور وہ اپنی ٹیم سے دیکھنے والوں کو متعارف کرانا چاہتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خاتون، یا شاید دونوں خواتین، اس ریستوران کی مالک ہیں۔ اس کے بعد اویس نامی شخص کو آواز دے کر اسے بلایا جاتا ہے اور اسے اپنے منیجر کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ دیا اس شخص سے پوچھتی ہیں کہ وہ کتنے برسوں سے ان کے لیے کام کر رہے ہیں، جس کے جواب میں اویس بتاتے ہیں کہ نو برس۔ ساتھ ہی دیا بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے نو برس قبل کیفے سول کھولا تھا، تو اویس سب سے پہلے ملازمت پر رکھے جانے والے شخص تھے۔

Published: undefined

دیا کا اویس سے اگلا سوال ان کی انگریزی کی کلاسز کے بارے میں ہوتا ہے جس کے جواب میں وہ تین بولتے ہیں۔ وضاحت کے لیے پوچھا جاتا ہے کہ تین برس، جس کے جواب میں وہ شخص بتاتا ہے کہ نہیں، چھ چھ ماہ کے تین کورسز۔ اس کے بعد عظمیٰ اویس سے کہتی ہیں کہ کیا وہ دیکھنے والوں کے لیے انگریزی میں ایک جملہ بول سکتے ہیں۔ اویس کے تذبذب پر دیا لقمہ دیتی ہیں کہ وہ اپنا تعارف کرا سکتے ہیں۔

Published: undefined

کیمرے کے سامنے یہ شخص اپنا تعارف کراتے ہیں کہ ان کا نام اویس آفتاب ہے اور وہ یہاں منیجر کے طور پر ملازمت کر رہے ہیں۔ مگر وہ یہ جملہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ادا کرتے ہیں جس کا جواب دیا رحمان اسے اردو میں شاباش کہہ کر دیتی ہیں۔ ساتھ ہی عظمیٰ طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ یہ ان کے منیجر ہیں جو ان کے ساتھ نو برسوں سے کام کر رہے ہیں اور یہ وہ خوبصورت انگریزی ہے جو وہ بولتے ہیں۔ دیا کی جانب سے لقمہ دیا جاتا ہے کہ اسی کے لیے انہیں تنخواہ دی جا رہی ہے، جس پر عظمیٰ مزید طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک بہت اچھی تنخواہ۔

Published: undefined

سوشل میڈیا پر رد عمل

Published: undefined

اس ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جو ایک مثبت بات دیکھنے میں آئی وہ يہ ہے کہ تقریباﹰ تمام تر صارفین نے اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'غلامانہ ذہنیت‘ قرار دیا۔

Published: undefined

اسی بارے میں پاکستان میں رہائش پذیر امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ''بظاہر یہ خواتین کنولی کیفے سول اسلام آباد کی مالک ہیں۔ آئیے ہم ان خواتین کی عوامی سطح پر معذرت کرنے کی حوصلہ افزائی کریں اور اس شخص کے صبر، عاجزی، کام اور خاندان کے لیے اس کے عزم پر ہميں اسے انعام دینا چاہیے۔ میں انہیں مفتی کی طرح تھپڑ رسید کرتی۔‘‘

Published: undefined

داؤد عمر نامی ٹوئیٹر صارف نے لکھا، ''کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے اب؟ ان خواتین کو شرم آنی چاہیے، جنہوں نے اس شخص کا مذاق بنایا۔‘‘

Published: undefined

ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے اس مسئلے پر سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر بات ہو رہی ہے جس میں اردو کا مذاق اڑانے پر ان خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام تر پیغامات یا کمنٹس انگریزی زبان میں ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined