سماج

کیا ہم اس ان دیکھے دشمن کو شکست دے سکیں گے؟

کورونا نے کوئی سات ماہ قبل چین میں سر اٹھایا لیکن ابھی تک سائنسدان اور سیاستدان اس وائرس کی تباہی سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔

کیا ہم اس ان دیکھے دشمن کو شکست دے سکیں گے؟
کیا ہم اس ان دیکھے دشمن کو شکست دے سکیں گے؟ 

نئے کورونا وائرس کا سائز انسانی بال سے بھی ایک ہزار گنا کم ہے۔ الیکٹرانک مائیکرواسکوپ میں دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس وائرس کے بیرونی حصے پر کانٹے جیسے ابھار ہیں جو دیکھنے میں ایک تاج لگتا ہے۔ لاطینی زبان میں کورونا کا مطلب تاج ہوتا ہے۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق یہ وائرس انہی کانٹوں کی مدد سے انسانی جسم کے ایک خلیے کی بیرونی دیوار توڑ کر اس میں داخل ہوتا ہےاور ڈیرے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔

Published: undefined

کورونا وائرس کی نئی قسم بہت خطرناک ہے لیکن اس کی ایک بڑی کمزوری ہے کہ اس کی بیرونی دیوار عام سے صابن سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی لیے سائنسدان، محقیقین اور معالجین اس پر زور دیتے ہیں کہ صابن سے وقفے وقفے سے ہاتھ دھوتے رہیں، خاص طور پر جب باہر سے واپس گھر پہنچیں تو ہاتھ ضرور دھوئیں۔

Published: undefined

کیلیفورنیا یونیورسٹی میں قدیمی زندگی پر تحقیق کے پروفیسر چارلس مارشل کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم ارتقاء کے مراحل طے کرتی اتنی مؤثر ہوگئی ہے کہ اسے انسانی جسم میں گھسنے میں مشکل نہیں ہوتی۔

Published: undefined

وسکانسن میڈیسن یونیورسٹی کے ماہر تھومس فریڈرش برسوں سے متعدی امراض پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کی لیبارٹری کئی دوسری تجربہ گاہوں کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کو قابو کرنے کی کاوشوں میں شریک ہے۔ فریڈرش کا کہنا ہے کہ انسان کے مدافعتی نظام نے پہلے اس نوعیت کے مہلک وائرس کا سامنا نہیں کیا۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق اس سے پہلے زیکا اور ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مختلف تدابیر اپنائی گئیں لیکن کورونا کی اس نئی قسم کی روک تھام بہت مشکل ثابت ہوئی ہے کیونکہ بند جگاہوں میں یہ ہوا سے بھی پھیلتی ہے۔ وائرس کی اس قسم نے سرحدوں کو خاطر میں لائے بغیر تقریباً ہر ملک میں انسانی جانیں ختم کی ہیں۔

Published: undefined

محقیقن اس وائرس کی راہ روکنے کی کوشش میں ہیں۔ کئی ممالک نے ایسے دعوے کیے ہیں کہ وہ کورونا کے انسداد کی ویکسین بنانے کے قریب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے امراض کے لیے تیار کی گئی ادویات کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ بعض مریضوں پر ان کے مثبت اثرات بھی مرتب ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ دوائیں اس کا حتمی علاج نہیں۔

Published: undefined

حالیہ ہفتوں کے دوران ہزاروں رضاکار مریضوں پر نئی ویکسین کی آزمائش کی گئی ہے۔ امریکا میں جاری ایک ایسے ہی پراجیکٹ کا نام 'کووڈ ہیومن جینیٹک ایفرٹ' ہے۔ اس کی سربراہی فرانس سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت کے نیورولوجسٹ ژاں لاراں کاسانووا کر ہے ہیں۔

Published: undefined

سائنسدان اس پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ کووڈ انیس کی وبا نے اپنی گرفت میں بچوں کو کیوں نہیں لیا؟ بچے کیسے اور کیوں کر محفوظ رہے ہیں؟ اس پہلو پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کیا بچوں کا مدافعتی نظام بالغ افراد سے مختلف اور زیادہ بہتر ہوتا ہے؟

Published: undefined

دوسری جانب امریکی حکومت کے متعدی امراض کے اعلیٰ ترین ماہر ڈاکٹر انتھنی فاؤچی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے شخص میں کسی حد تک مدافعت بڑھ جاتی ہے اور اس کے دوبارہ اس بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ صحت یابی کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کب تک مؤثر رہتی ہیں۔

Published: undefined

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میں نیشنل ڈزاسٹر سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارون ریڈلینر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا عمل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک سرنگ میں ہوں جس کے آخر میں روشنی دکھائی دے رہی ہو، لیکن یہ سرنگ بہت طویل ہو۔

Published: undefined

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی اس وائرس کے بارے میں بہت زیادہ کچھ نہیں جان پائے لیکن یہ طے ہے کہ اقوام عالم اب ایک نئی طرز زندگی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined