سماج

کیا لڑکیوں کی شادی کی عمر 21 برس کرنے سے غیر قانونی شادیوں میں اضافہ ہوگا؟

مودی کابینہ نے 'چائیلڈ میرج ایکٹ' میں ترمیم کرتے ہوئے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر لڑکوں کے برابر یعنی 21 برس کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ فی الحال 18برس کی لڑکیوں کو بھی شادی کی قانوناً اجازت حاصل ہے۔

بھارت: لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم قانونی عمر اب 21 برس
بھارت: لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم قانونی عمر اب 21 برس 

مودی کابینہ نے بدھ کے روز اپنی میٹنگ میں چائیلڈ میرج ایکٹ 2006ء ، اسپیشل میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955ء میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ جس کے ساتھ ہی لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر برابر ہوجائے گی۔ فی الحال لڑکوں کے لیے شادی کی کم ا ز کم عمر 21 برس ہے۔ حکومت اس حوالے سے جلد ہی ایک بل پارلیمان میں پیش کرے گی۔

Published: undefined

بھارت میں ایک طویل عرصے سے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر بڑھانے کا مطالبہ ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں ملک میں سماجی اور اقتصادی منصوبہ تیار کرنے والے ادارے نیتی آیوگ نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔ جیا جیٹلی کی صدارت والی اس کمیٹی نے دسمبر 2020 میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی تھی۔ اس رپورٹ میں ماں بننے کی عمر، زچہ کی شرح اموات، تغذیاتی معیار کو بہتر بنانے سمیت دیگر کئی امور پر بھی سفارشات شامل ہیں۔

Published: undefined

وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے اپنی روایتی تقریر میں بھی لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر میں اضافہ کرنے کا ذکر کیا تھا۔

Published: undefined

عمر میں اضافہ کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانا

جیا جیٹلی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافے کی جو سفارش کی ہے اس کا تعلق آبادی پر کنٹرول سے قطعی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''حال ہی میں جاری کردہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں مجموعی فرٹیلیٹی ریٹ مسلسل گر رہا ہے اور آبادی کنٹرول میں ہے۔ اس سفارش کے پس پردہ اصل مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔‘‘

Published: undefined

سماجی کارکن جیا جیٹلی کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے،'' بڑے پیمانے پر ماہرین اور نوجوانوں اور بالخصوص خواتین کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد اپنی سفارشات پیش کی تھیں کیونکہ اس فیصلے کا براہ راست ان سے ہی تعلق ہے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید بتایا، '' 16یونیورسٹیوں سے فیڈ بیک حاصل کیا گیا اور نوجوانوں سے رابطے کے لیے 15 این جی اوز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ راجستھان، جہاں کم سن بچوں کی شادی کا رواج عام ہے، کے بیشتر اضلاع کے علاوہ ملک کے متعدد شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں سے ان کی رائے معلوم کی گئی۔‘‘

Published: undefined

سیکس ایجوکیشن پربھی زور

جیاجیٹلی کی صدارت والی کمیٹی نے اسکول کے نصابِ تعلیم میں سیکس ایجوکیشن کو باضابطہ شامل کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے خواتین کے لیے ووکیشنل کورسیز، ہنرمندی اور بزنس کی تربیت دینے اور ذریعہ معاش کو بہتر بنانے کے طریقے بتانے کی بھی سفارش کی ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم عمر کے قانون کو عملی طورپر نافذ کرنے میں مدد ملے گی۔''اگر لڑکیاں مالی لحاظ سے خود کفیل ہوں گی تو ان کے سرپرست کم عمر میں شادی کرنے سے پہلے دو بار سوچیں گے۔‘‘

Published: undefined

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پارلیمان میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران کہا تھا کہ چونکہ بھارت اب تیزی سے ترقی کررہا ہے اور خواتین کے لیے بھی اعلٰی تعلیم اور کیریئر کے نئے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں اس لیے لڑکیوں کے ماں بننے کی عمر کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

فیصلے کی نکتہ چینی بھی

جیا جیٹلی نے تسلیم کیا کہ بعض حلقوں نے لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کی مخالفت کی ہے۔ خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نیز فیملی پلاننگ کے ماہرین بھی لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے قانونی سازی کے بعد آبادی کا ایک بڑا طبقہ غیر قانونی شادی کا راستہ اختیار کرلے گا۔

Published: undefined

ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر 18برس ہونے کے باوجود بچہ شادی عام ہے اورقانون موجود ہونے کے باوجود انتہائی کم عمری میں شادیوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ قانون سازی کی بجائے لڑکیوں کے لیے تعلیم اور روزگارکے مواقع میں اضافہ کرکے اس رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے۔

Published: undefined

یونیسیف کے مطابق بھارت میں ہر سال 15لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کی 18برس سے کم عمر میں شادی ہوجاتی ہے۔

Published: undefined

خواتین اوربچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 21 برس کا قانون منظور ہوجاتا ہے تو دیگر قوانین کی طرح اس کے بھی غلط استعمال کا خدشہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ منفی اثر پسماندہ طبقات اور قبائلیوں پر پڑے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined