سماج

بھارت کا اسمارٹ سٹیز منصوبہ اپنے ہدف سے دور کیوں ہے؟

مودی حکومت کے اسمارٹ سٹیزمشن کا مقصد بھارت کے 100 شہروں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ملک کی شہر کاری کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ حکومت نے برسوں پہلے ہی اس مشن کو مکمل کرلینے کا ہدف مقرر کیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

وزیراعظم نریندر مودی نے بڑے عزائم کے ساتھ جون 2015 میں بھارت کا اسمارٹ سٹیز مشن (ایس سی ایم) شروع کیا تھا، جس میں 100شہروں کی نشاندہی کی گئی تھی تاکہ انہیں صاف ستھرے اور پائیدار ماحول والے بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا جاسکے۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے 22 ارب ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔

Published: undefined

شہری منصوبہ سازوں اور معماروں نے خبر دار کیا ہے کہ بھارت کے میٹروپولیٹن شہر، جو مسلسل مہاجرت کی وجہ سے پہلے سے ہی بڑے دباؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بڑی آسانی سے افراتفری سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

Published: undefined

ایس سی ایم نے اقتصادی ترقی کو آسان بنانے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے مقصد کے ساتھ منتخب شہروں میں 7800 سے زائد پروجیکٹوں کا آغاز کیا۔ ایک خبر رساں ادارے انڈیا اسپینڈ نے مئی میں ایک حکومتی بیان کے حوالے سے بتایا تھا کہ اب تک ان میں سے 73 فیصد پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں۔ لیکن کچھ شہروں نے دوسرے کے مقابلے میں بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

Published: undefined

مالیاتی احتساب کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے سرگرم آزاد ادارہ سینٹر فار فائنانشیل اکاونٹیبلیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، "منصوبے کی تکمیل میں یہ تاخیر 100 شہروں میں غیر متناسب ہے۔ کچھ شہروں کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہے جب کہ دیگر پروجیکٹوں پر عمل درآمد میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔"

Published: undefined

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ توازن ان منصوبوں کے لیے فنڈز کے استعمال کی شرح میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کچھ شہروں میں مکمل ہونے والے منصوبوں کی فیصد کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہے اس کے باوجود ان منصوبوں کے لیے فنڈز کے استعمال کی شرح ناقص رہی ہے۔"

Published: undefined

ایس سی ایم کے منتظمین نے ابتدائی طورپر سن 2020 تک اسمارٹ سٹییز مشن کے مکمل ہوجانے کی امید ظاہر کی تھی۔ لیکن کووڈ وبا کی وجہ سے حکام نے اس کی مدت میں جون 2023 تک توسیع کردی۔ لیکن بہت سے شہروں میں پروجیکٹ تکمیل سے بہت دور ہیں۔ انہوں نے ان کی تکمیل کی مدت میں مزید توسیع کرتے ہوئے اب جون 2024 کی تاریخ طے کی ہے۔ دریں اثنا ممبئی سمیت کئی شہروں نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے خود کو اس پروجیکٹ سے الگ کرلینے کا فیصلہ کیا ہے۔

Published: undefined

یہ منصوبہ آخر ہے کیا؟

ایس سی ایم کا تصور ایک بڑے پیمانے پر شہری بنیادی ڈھانچے کی تجدید اور ریٹروفیٹنگ اقدام کے طورپر کیا گیا تھا، جس کا مقصد شہری بنیادی ڈھانچے کے ماحولیات کو لچکدار اور پائیدار بنانا، سستی رہائش، مناسب بجلی اور پانی فراہم کرنا اور فضلات کا موثر انتظام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹے اور بڑے 53 اسمارٹ شہروں میں 232 پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ یہ پروجیکٹ مختلف شعبوں پر مشتمل ہیں جن میں ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ ہب، کامن موبلیٹی کارڈ، ملٹی لیول کارپارکنگ اور پبلک بائیک شیئرنگ جیسے انفرااسٹرکچر شامل ہیں۔

Published: undefined

کرناٹک تقریباً 768 اقدامات سے سب سے زیادہ مکمل پروجیکٹوں کے ساتھ ریاستوں کی فہرست میں سر فہرست ہے۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش (577)، اترپردیش (553) اور تمل ناڈو(531) ہیں۔ اندور نے تمام شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ پروجیکٹ مکمل کیے جبکہ شیلانگ اس معاملے میں سب سے پیچھے ہے، اس نے صرف ایک پروجیکٹ مکمل کیا۔

Published: undefined

ایس سی ایم کی کارکردگی مایوس کن، کارکنان

ایس سی ایم کے رہنما خطوط کے مطابق ان پروجیکٹوں کے لیے مرکزی حکومت مالی مدد فراہم کرتی ہے اور ریاستی حکومتوں اور شہری بلدیاتی اداروں (یو ایل بی) سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پروجیکٹوں کو نافذ کرنے کے لیے مساوی رقم ادا کریں۔ حکومت ایس سی ایم کے کامیاب نفاذ کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ(پی پی پی) کی حوصلہ افزائی پر توجہ دے رہی ہے۔

Published: undefined

تاہم شہری منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ ان مجوزہ اسمارٹ شہروں میں ٹیکنالوجی پر مبنی "اسمارٹ حل" کے استعمال کے لیے خاطر خواہ وضاحت نہیں کی گئی۔ پروجیکٹوں پر عمل درآمد میں تاخیر کی یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ ہیزرڈ سینٹر نامی تحقیقاتی تنظیم چلانے والے سیاسی ماہر ماحولیات ڈونو رائے کہتے ہیں کہ ایس سی ایم سابقہ کانگریس حکومت کی طرف سے شروع کی گئی جواہر لال نہرو نیشنل اربن رینوئل مشن (جے این این یو آر ایم) کی ہی ایک کڑی ہے، جو کہ شہروں کی جدید کاری کی ایک بڑی اسکیم تھی اور بہت ساری "اسمارٹ"اصلاحات اس کی بنیاد تھی۔ اس پروجیکٹ کو سن 2005 میں شروع کیا گیا تھا۔

Published: undefined

ڈونو رائے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا "جے این این یو آر ایم کی کارکردگی تاہم مایوس کن تھی۔ اس میں نجی سرمایہ کاری صرف 11 فیصد تھی اور اس کی کامیابی کا حدف 35 فیصد سے بھی کم تھا۔" انہوں نے مزید بتایا،"نجی سیکٹر اس وقت تک قدم آگے نہیں بڑھائے گا جب تک کہ بنیادی ڈھانچے میں اہم ریاستی سرمایہ کاری نہ ہو۔ اور ریاست عوامی ضروریات میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے شہر چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔"

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا کہ ایس سی ایم صرف ایک اسمارٹ وژن کو فروغ دیتا ہے۔ نیا وژن بڑے ڈیٹا کے نظم میں ٹیکنالوجی کی رفتار سے منسلک ہے اور اسے نظریاتی طور پر پرائیوٹ فرموں، پراپرٹی ڈیلروں، فری مارکیٹرز اور حکومتوں نے تیار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایس سی ایم کی کارکردگی اتنی ہی مایوس کن ہے۔"

Published: undefined

پروجیکٹس کو سنبھالنے کے لیے حکام کی جدوجہد

مشہور لینڈ اسکیپ آرکیٹکٹ فریڈرک ریبیرو کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک اور مسئلہ ایس سی ایم کے مطلوبہ مقاصد اور عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں بشمول مقامی بلدیاتی اداروں کے درمیان کا اختلاف ہے۔ ریبیرو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"افسران بالخصوص چھوٹے میونسپل حکام کو جب بڑے بجٹ کو سخت مقررہ وقت اور مرکزی حکومت کی طرف سے کسی تعاون کے بغیر کام کرنا ہوتا ہے تو یہ کام ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔"

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا "ان کے پاس اس طرح کے بڑے پروجیکٹ کو سنبھالنے اور ان پر عمل درآمد کرانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انہوں نے دکھاوے کے لیے پروجیکٹ لے تو لیے لیکن انہیں درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔" بعض دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے پہل میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ، حکام کو ٹیک سروس کمپنیوں پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

Published: undefined

بھارت میں 25 سال میں شہری آبادی دوگنا ہوجائے گی

ایس سی ایم کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ثقافتی خصوصیات کو نظر انداز کررہا ہے اور مقامی ضروریات اور امنگوں کی تکمیل نہیں کر رہا ہے۔ ریبیرو کہتے ہیں، "آرکیٹیکٹس، منصوبہ سازوں، شہری ڈیزائنروں اور مشیروں کے بہت سارے ٹینڈر اور تقرریاں مرکزی طورپر کی جاتی ہیں کیونکہ اس کے لیے بڑی فنڈنگ اور نگرانی نئی دہلی سے ہوتی ہے۔ یہ مقامی بلدیاتی اداروں کی ناراضگی اور عدم تعاون کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ لسانی اور ثقافتی قربت کی وجہ سے مقامی صلاحیتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔"

Published: undefined

سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے پارتھا مکھو پادھیائے اس بات سے تواتفاق کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ تمام صوبوں کے حوالے سے یہ بات درست نہیں ہے۔ "مثال کے طورپر تمل ناڈو میں کوئمبٹور نے جھیلوں کی بحالی میں، آئیزول نے کھیل کے میدانوں میں، چینئی نے سیلاب کی وارننگ کے نظام میں، اندرو نے بائیو گیس سے چلنے والی بسوں میں اور چنڈی گڑھ نے سائیکل ٹریکس میں سرمایہ کاری کی۔"

Published: undefined

مکھوپادھیائے کا کہنا تھا،" کسی چیز کی اسمارٹنیس ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ رہائشی گروپوں کی مقامی ضروریات اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت میں ہے۔"

Published: undefined

ایس سی ایم اور اس کا 22 بلین ڈالر کا پروجیکٹ بھارت کو اپنے بڑھتے ہوئے شہروں کی مدد کرنے کی سمت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت کے سلسلے میں صرف پہلا قدم ہے۔ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کے ساتھ بھارت اب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ مجودہ شہری آبادی تقریباً 460 ملین ہے اور حکام کا خیال ہے کہ اگلے 25 سالوں میں یہ دوگنا ہو جائے گی۔ بھارت کی ہاوسنگ اور شہری امور کی وزارت کا خیال ہے کہ شہرکاری کی اس لہر سے نمٹنے کے لیے تقریباً 6 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined