سماج

بھارت: کوٹہ 'خودکشیوں کا شہر' کیوں بنتا جا رہا ہے؟

مسابقتی امتحانات کے لیے 'کوچنگ ہب' کے طور پر مشہور راجستھان کے شہر کوٹہ میں طلبہ کی خودکشی کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ گزشتہ دنوں چار گھنٹے کے وقفے سے یہاں دو طالب علموں نے خودکشی کرلی۔

بھارت: کوٹہ 'خودکشیوں کا شہر' کیوں بنتا جا رہا ہے؟
بھارت: کوٹہ 'خودکشیوں کا شہر' کیوں بنتا جا رہا ہے؟ 

تضادات سے پر بھارتی سماج میں والدین کا ایک بڑا طبقہ خود کو نمایاں کرنے کا بوجھ بچوں کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتا ہے۔ بچوں کا ڈاکٹر یا انجینئر بننا سماج میں ممتاز ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کوچنگ ادارے اسی خواہش کا استحصال کرتے ہیں۔

Published: undefined

راجستھان کے شہر کوٹہ میں پورے بھارت سے بچے آتے ہیں جہاں موجود کوچنگ ادارے انہیں میڈیکل یا انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے امتحانات میں کامیابی دلا کر ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا بھروسہ دلاتے ہیں۔ لیکن بیشتر لوگوں کے خواب پورے نہیں ہوتے۔

Published: undefined

بھارت میں چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً تمام سرکاری اور پرائیوٹ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے طلبہ کو بالترتیب جے ای ای (جوائنٹ انٹرنس ایگزامنیشن) یا نیٹ (نیشنل ایلیجبلیٹی کم انٹرنس ٹیسٹ) میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ یہ مسابقتی امتحانات کافی مشکل ہیں اور ان میں شریک ہونے والے لاکھوں طلبہ میں سے صرف چند ہزار ہی اچھے کالجوں میں داخلہ پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

Published: undefined

کوٹہ ایک بار پھر خبروں میں کیوں؟

کوٹہ کو 'کوچنگ ہب' کہا جاتا ہے لیکن یہ خودکشی کے مرکز کے طورپر مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے آٹھ ماہ میں 24 طلبہ خودکشی کر چکے ہیں ان میں سے 14 ایسے تھے جو چند ماہ قبل ہی یہاں آئے تھے۔ گذشتہ 27 اگست کو صرف چار گھنٹے کے وقفے سے یہاں دو طالب علموں نے خودکشی کرلی۔ ان میں سے ایک 18 سال کا آدرش بہار کا رہنے والا تھا اور صرف چار ماہ قبل ہی نیٹ کی تیاری کے لیے یہاں آیا تھا۔ دوسرا مہاراشٹر کا 17 سالہ سمباجی کالسے تھا۔ جو پچھلے تین سال سے نیٹ میں کامیابی کے لیے محنت کر رہا تھا۔

Published: undefined

خودکشی کے ان واقعات کے بعد مسابقتی امتحانات کی وجہ سے طلبہ پر پڑنے والے دباو اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ آدرش اپنے معمول کے ٹیسٹ میں 700 میں سے صرف 250 مارکس لا پا رہا تھا جس کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔ کیونکہ اتنے کم مارکس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بالآخر وہ اس دباو کو برداشت نہ کرسکا اور زندگی کو ختم کرنے کا انتہائی قدم اٹھا لیا۔

Published: undefined

بارہ سال میں 150سے زیادہ طلبہ نے خودکشی کرلی

ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے 12سال میں کوٹہ میں 150سے زائد طلبہ خودکشی کرچکے ہیں۔ کوٹہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دسمبر میں چار طلبہ نے خودکشی کرلی تھی، جس کے ساتھ سن 2022 میں خودکشی کرنے والوں تعداد 15ہوگئی تھی۔ سن 2015 میں 17طلبہ نے، سن 2016 میں 16طلبہ نے، سن 2017 میں سات، سن 2018 میں 20 اور سن 2019 میں آٹھ طلبہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

Published: undefined

سن 2020 اور 2021میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کوچنگ ادارے بند رہے اس لیے خودکشیوں کی تعداد صرف چار اور ایک رہی۔

Published: undefined

طلبہ پر والدین کی امیدوں کا بوجھ

پٹنہ میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکہتے ہیں، "جے ای ای یا نیٹ امتحان کا جو پیٹرن ہے اس سے بچوں پر پڑھائی کا کافی دباؤ رہتا ہے۔ انہیں ایک ایک نمبر کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور نگیٹیو مارکنگ اسے مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ اس لیے کوچنگ کے ٹیسٹ میں پیچھے رہنے پر انہیں اپنا وجود ہی خطرے میں دکھائی دینے لگتا ہے۔"

Published: undefined

ڈی ڈبلیو کے ایک صحافی نے اس حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کوچنگ ٹیسٹ میں کم نمبر لانے کی وجہ سے ان کی بیٹی کس طرح ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔ اور کافی علاج اور کاونسلنگ کے بعد ہی وہ اس صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہو سکی۔ سائیکالوجی کی استاذ رشمی شیکھر کا کہنا تھا، "اس صورت حال کے لیے والدین کے توقعات بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی بچہ اپنی صلاحیت کے مطابق ہی چیزوں کو سمجھتا ہے۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے اس پر دباو ڈالنا نہیں چاہئے اور پاس پڑوس کے بچوں کی کامیابی کو دیکھ کر تو قطعی نہیں۔"

Published: undefined

'یہ ٹریڈ مل' ہے

طلبہ حساس ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ والدین ان پر کافی پیسے خرچ کررہے ہیں ایسے میں وہ خود کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس سے ان کے لیے 'کرو یا مرو' جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اور جب وہ دباو برداشت نہیں کرپاتے تو انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ جے ای ای کی تیاری کرنے والی اوڈیشہ کے ایک طالبہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے دو سال سے کوٹہ میں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی زندگی ایک 'ٹریڈ مل' بن کر رہ گئی ہے۔

Published: undefined

وہ کہتی ہیں "یہ ٹریڈ مل پر دوڑنے کی طرح ہے۔ آپ کے پاس صرف دو ہی متبادل ہوتے ہیں یا تو اس سے اتر جائیں یا پھر دوڑتے رہیں۔ آپ وقفہ نہیں لے سکتے۔ اپنی رفتار سست نہیں کرسکتے، بس صرف دوڑتے رہنا ہے۔" ایک دیگر طالب علم کا کہنا تھا کہ اگر آپ کچھ دیر بھی پڑھائی نہیں کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے وقت برباد کردیا، جس سے احساس جرم پیدا ہوتا ہے اور دباو کی وجہ سے کارکردگی مزید متاثر ہوتی ہے۔ کوٹہ میں ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ وہاں کوچنگ حاصل کرنے والے طلبہ ایک دوسرے کو دوست سمجھنے کے بجائے مدمقابل اور اپنی کامیابی کی راہ میں کانٹا سمجھتے ہیں۔ اور اسے ہرا کر خود کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Published: undefined

گھر سے دوری بھی خودکشی کی ایک وجہ

ماہرین کہتے ہیں کہ گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے بچے تنہائی محسوس کرتے ہیں اور کئی مرتبہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کا علم نہ تو کوچنگ انسٹی ٹیوٹ ہوتا ہے اور نہ ہی والدین کو۔ بعض والدین کو اس کا احساس ہے۔ اس لیے وہ کوچنگ کے دوران بچوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہے۔

Published: undefined

اپنی بیٹی کے ساتھ کوٹہ میں دو سال تک رہ کر کوچنگ مکمل کرانے والی ایک خاتون انجم (بدلا ہوا نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ" وہ اپنے گھر اور شوہر سے دو سال تک دور رہیں تاکہ ان کی بیٹی کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ حالانکہ اس کا مالی بوجھ بھی ان پر پڑا لیکن اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کی امید میں انہوں نے یہ سب برداشت کیا۔" یہ الگ بات کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود وہ اتنا مارکس نہیں لاسکی کہ کسی مشہور انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل سکے۔ بیشتر طلبہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

Published: undefined

کوچنگ: اربوں روپے کی صنعت

کوٹہ میں ہر سال تقریبا ً ڈھائی لاکھ طلبہ کوچنگ اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ یہاں چار ہزار سے زیادہ ہاسٹل اور چالیس ہزار سے زیادہ پی جی (پیئنگ گیسٹ) ہیں، جہاں بچے رہتے ہیں۔ کوچنگ کی فیس سالانہ ایک سے دو لاکھ کے قریب ہوتی ہے اور بچوں کے قیام و طعام پر فی کس ماہانہ سات سے پندرہ ہزار روپے تک کا علیحدہ خرچ آتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کوٹہ میں کوچنگ کی صنعت تقریباً 12000 کرو ڑ روپے کی ہے۔

Published: undefined

خودکشی کے لیے ذمے دار کون؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ کی خودکشی کے لیے کسی ایک کو ذمے دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔ اور اس رجحان کو روکنے کے لیے کئی محاذوں پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں حکومت، کوچنگ اداروں اور سرپرست ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Published: undefined

والدین کو سمجھنا ہوگا کہ ہر بچے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ انہیں بچے کی پسند کے برخلاف ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے دباو ڈالنا درست نہیں ہے۔ کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کو اپنے طریقہ کار ایسا بنانا ہوگا جس سے طلبہ کے دماغ پر غیر ضروری دباو نہ پڑے۔ جب کہ حکومت اس امر کویقینی بنانا ہوگا کہ کوچنگ ادارے رہنما خطوط پر عمل درآمد کریں۔

Published: undefined

سپر 30 کے آنند کمار کا مشورہ

'سپر 30 ' کے بانی اور ریاضی داں آنند کمار، جو انجینئرنگ کے بہترین کالجوں میں داخلے میں سینکڑوں طلبہ کی مدد کرچکے ہیں اور جن کی زندگی پر بالی وڈ میں فلم بھی بن چکی ہے، کوٹہ کے حالات سے خاصے فکر مند ہیں۔ انہوں نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کوچنگ سینٹروں سے طلبہ کو "اپنا بچہ"سمجھتے ہوئے ان پر پوری توجہ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے لکھا،"میں کوچنگ چلانے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تعلیم کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے ان پر توجہ دیں۔"

Published: undefined

انہوں نے مزید لکھا، "میں طلبہ سے بھی کہنا چاہوں گا کہ صرف ایک امتحان آپ کی صلاحیتوں کا فیصلہ نہیں کرتا۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے ایک سے زائد طریقے ہیں۔ اسی کے ساتھ والدین کو بھی اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بچوں پر دباو نہیں ڈالنا چاہئے۔"

Published: undefined

حکومت کیا کر رہی ہے؟

کوٹہ کی ضلع انتظامیہ نے ہاسٹلوں یا پی جی والے کمروں کے لیے کئی ہدایتیں جاری کی ہیں۔ ان میں اسپرنگ لوڈڈ پنکھے لگانے کا حکم دیا ہے تاکہ اگر کئی طالب علم پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو پنکھا گر جائے اور اس کی جان بچ جائے۔ انہوں نے بالکنی میں جال لگانے کی بھی ہدایت دی ہے۔

Published: undefined

کوٹہ کے کلکٹر نے کوچنگ اداروں میں دو ماہ تک کوئی امتحان نہ لینے کی ہدایت بھی دی ہے۔ حالانکہ لوگوں نے ان طریقہ کار کو فضول کوشش قرار دیا ہے۔ خودکشی کے بڑھتے واقعات کے مدنظر راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ایک کمیٹی قائم کی ہے اور اسے پندرہ دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کمیٹی میں کوچنگ اداروں کے نمائندوں کے علاوہ والدین اور ڈاکٹروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

Published: undefined

سوال یہ ہے کہ کیا ان طریقہ کار سے طلبہ کی خودکشی رک جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شاید نہیں۔ ماہرین تعلیم نظام تعلیم اور امتحانات کے طریقہ کار میں انقلابی تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ والدین اور بچوں کو بھی زندگی میں کامیابی کے حوالے سے اپنا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے۔

(پٹنہ سے منیش کمار کے ساتھ)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined