سماج

بچے پرتشدد کیوں ہو جاتے ہیں؟

بچوں میں کھلونا ہتھیاروں سے کھیلنے کا شوق کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ کئی والدین کے مطابق یہ امر ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ لیکن بچے جو دیکھتے ہیں، وہی سیکھتے اور کرتے ہیں۔

بچے پرتشدد کیوں ہو جاتے ہیں؟
بچے پرتشدد کیوں ہو جاتے ہیں؟ 

کنول خالد تین بچوں کی ماں ہیں۔ وہ راولپنڈی کے ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ چالیس سالہ اس خاتون کے مطابق وہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ اعتراف کرتی ہیں کہ کبھی کبھار وہ کالج کے کاموں میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ اپنی اس ذمہ داری میں چوک بھی جاتی ہیں۔

Published: undefined

کنول کے چودہ سالہ بڑے بیٹے نے حال ہی میں ایک کھلونا تلوار خریدی ہے کیونکہ وہ پہلے سے موجود کھلونا بندوق اور ریوالور سے بور ہو گیا تھا۔ اب اس نے اپنے پرانے کھلونے اپنے چھوٹے بھائی کو دے دیے ہیں جبکہ اس کی دس سالہ اکلوتی بہن نادیہ ایک "سگھڑ" خاتون بننے کی طرف گامزن ہیں۔

Published: undefined

نادیہ صبح سویرے گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ بھایئوں اور والد کے لیے ناشتہ بنانا بھی سیکھ رہی ہے اور ہیڈ اسکارف پہن کر اسکول جاتی ہے۔ کھیل میں اسے خود تشدد پسند نہیں لیکن وہ اپنے بھایئوں کو جنگی کھلونوں سے کھیلتے ہوئے دیکھ کر فخر ضرور محسوس کرتی ہے، "بھائی تو لڑکے ہیں، انہیں یہ کھلونے سوٹ کرتے ہیں"۔

Published: undefined

معاشرتی رویوں میں تشدد کیوں پیدا ہوتا ہے؟

Published: undefined

کنول نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پتہ نہیں ان کے بیٹوں کو جنگی کھلونوں کا زیادہ شوق کیوں ہے، " شاید یہ بات معاشرتی رویوں میں ہے"۔ ایک سوال کے جواب میں کنول نے کہا کہ بچے ایکشن فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں اور آج کل ترک ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی ان کا پسندیدہ ٹی وی شو ہے، ''اس ڈرامے میں کوئی فحاشی نہیں ہم سب گھر والے اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں اور اس سے بچوں میں ہماری تابناک اسلامی تاریخ کے بارے میں بھی شعور پیدا ہوتا ہے۔‘‘

Published: undefined

اس ترک ٹی وی ڈرامہ سیریل نے پاکستان میں کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اسے ہالی اور بالی ووڈ کی فلموں کا ایک بہترین نعم البدل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام میں اس تاریخی ڈرامے کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک مسلم ملک کی پیش کش ہے، جس میں اسلامی روایات کی حساسیت کا خیال رکھا گیا ہے۔

Published: undefined

اس ڈرامے میں ترک تہذیب اور سلطنتِ عثمانیہ کی کامیابیوں کو عکس بند کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کی پروڈکشن کسی لحاظ سے بالی یا ہالی ووڈ کی فلموں سے کم نہیں ہے۔ خوبصورت لوکیشنز اور کرداروں کو تیکنیکی اعتبار سے بھی مہارت کے ساتھ فلم بند کیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام ان مسلم کرداروں سے زیادہ بہتر طریقے سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔

Published: undefined

کیا یہ پہلے بھی ہوتا رہا؟

Published: undefined

اس ڈرامے کا ایک خاصا ایکشن یا تشدد بھی ہے، جو بالخصوص بچوں کے لیے انتہائی دلچسی کا باعث ہے۔ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ یہ صرف ایک ڈارمہ ہے، جس میں فکشن کا سہارا لیا گیا ہے لیکن تاریخ سے لاعلم یہ بچے اسے حقیقت سمجھتے ہوئے، اس ڈرامے کے پیغام کو اپنے دماغوں میں نقش کرتے جا رہے ہیں اور کھیل کھیل میں مزید تشدد کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

Published: undefined

فلم میکر اور صحافی مظہر زیدی کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کی عوامیت پسند حکومتیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور یہ ڈرامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، ''عالمی سطح پر ایک کوشش جاری ہے کہ ماضی کو گلوری فائی کرتے ہوئے تاریخ کا ایک ایسا ترمیم شدہ بیانیہ تخلیق کیا جائے، جو عوامیت پسند حکومتوں کی موجودہ ضروریات کو سوٹ کرتا ہے۔‘‘

Published: undefined

مظہر زیدی کے بقول یہ پریکٹس پرانی اور ہر دور میں سیاسی جماعتوں بلکہ تمام مکتب فکر ہائے تعلق سے رکھنے والے افراد نے اس طریقہ کار کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس دور میں بالخصوص پاکستان میں ماضی کے متبادل نظریات کو بالکل ہی غائب کر دیا گیا ہے اور صرف ایک نظریے کا پرچار کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

’عمران خان خود کو تاریخی کردار سمجھتے ہیں‘

Published: undefined

ترک ڈرامہ ارطغرل غازی تو ایک مثال ہے۔ فلم اور ٹی وی پروڈکشن میں ماضی میں بھی اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ماڈل، ہوسٹ، اداکارہ اور ایکٹیوسٹ عفت عمر کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھی ادب اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک خاص نظریے کے پرچار کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

Published: undefined

عفت عمر نے کہا ماضی کی طرح اب بھی بہت سے پاکستانیوں کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے اور اس طرح کا مواد اب بھی ان پر ٹھونسا جاتا ہے، ''ہمیں جو تابناک تاریخ رٹائی گئی ہے وہ تمام معاشرے میں سرایت کر چکی ہے اور وزیر اعظم عمران خان خود کو بھی اسی شاندار ماضی کا ایک ہیرو سمجھتے ہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔‘‘

Published: undefined

کئی حلقوں میں یہ رائے بھی زیر بحث ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس ڈرامے کی تشہیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان ذاتی طور پر قائل ہیں کہ پاکستان کے مسائل جمہوریت کے بجائے اسلامی خلافت سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔ عفت عمر کے مطابق بین الاقوامی دباؤ کے باعث وہ اپنے اس خیال کو شاید عملی جامہ تو نہیں پہنا سکتے لیکن ان کے نظریات پاکستان کو خلافت اور جمہوریت کے ایک ملغوبے میں بدل سکتے ہیں۔

Published: undefined

’بچوں کے ذہن کچے ہوتے ہیں‘

Published: undefined

کنول اور اس کے بچوں کو بھی ارطغرل غازی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم نے عوام سے کہا ہے کہ وہ اس ڈرامے کو ضرور دیکھیں تو یہ ڈرامہ حقیقی ہی ہو گا۔ اسی لیے وہ یہ ڈرامہ اپنے بچوں کو بھی دیکھاتی ہیں اور مسلمانوں کے تابناک ماضی پر رشک کرتی ہیں۔

Published: undefined

امریکی ماہر نفیسات نینسی کوبرین کا کہنا ہے کہ ارطغرل جیسے ٹی وی ڈرامے 'ذہن سازی‘ کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں لیکن اس ڈرامے کی خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی طور پر ایسے مشترکہ پرتشدد مغالطوں کو ابھارا گیا ہے، جو معاشرتی تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مشرق وسطیٰ امور کی ماہر نینسی نے کہا کہ چونکہ بالخصوص بچے حقیقت اور مغالطے میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اس لیے ان کا شدت پسندی کی طرف بہک جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہو گا۔

Published: undefined

’ارطغرل غازی‘ کا جواب ایک اور ڈرامے سے

Published: undefined

مظہر زیدی کا خیال ہے کہ تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی تصانیف کا سہارا لے کر اسّی کی دہائی میں جس نسل کی ذہن سازی کی گئی تھی، اسے حقیقی تاریخ کا کچھ علم نہیں بلکہ یہ نسل اب خیالی دنیا میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی دنیا میں بھی اس طرح کی فلمیں اور ڈرامے بنتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہاں ایک متنادل سنیما بھی ہے اور مختلف نظریات کو فنون و لطیفہ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن کسی ایک خاص نظریے کی تشہیر تنقیدی سوچ اور معاشرتی و بشریاتی ترقی کو مفلوج کر سکتی ہے۔

Published: undefined

اس تمام بحث سے بالائے طاق، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ترک ٹی وی ڈرامے ارطغرل غازی کے مقابلے میں اپنا ایک ڈرامہ بنانے کا فیصلہ کیا، جس کی ہدایتکاری کے فرائض انگلش فلم میکر پیٹر ویبر کو سونپی گئے۔ سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق ’کنگڈم آف فائرز‘ (ممالک النار) نامی اس سیریز کے لیے چالیس ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا، جس کا مقصد ترک سلطنت کو کھوکھلا پن آشکار کرنا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined