کرنسی نوٹوں کے برعکس سونے کو آج بھی قیمتی اور بہت منافع بخش دھات تصور کیا جاتا ہے۔ اثاثوں کی دوسری تمام شکلوں کے برعکس سونے کی مکمل نشاندہی اور اس کا پورا ریکارڈ رکھنا ممکن نہیں۔ تاہم ورلڈ گولڈ کونسل (ڈبلیو جی سی) کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے اختتام تک ایک لاکھ ترانوے ہزار ٹن سے زائد خالص سونا کان کنی کے ذریعے حاصل کیا جا چکا تھا اور یہ دنیا کے مختلف ممالک کی ملکیت میں ہے۔ اگر ملکیت کی بات کی جائے تو سونے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ جو نجی افراد یا خاندانوں اور دوسرا وہ جو اداروں کی ملکیت ہے۔ اداروں سے مراد یہاں مرکزی بینک، حکومتیں، کاروباری ادارے، میوزیم اور دیگر تنظیمیں ہیں۔
Published: undefined
جرمن ویب سائٹ گولڈ رپورٹر کے مطابق دنیا میں موجود تقریباﹰ نصف سونے (تقریباﹰ اڑتالیس فیصد) کو زیورات کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تقریباﹰ بانوے ہزار ٹن بنتا ہے۔ ڈبلیو جی سی کے مطابق سونے کے عالمی ذخائر کی مقدار تینتیس ہزار ٹن سے زائد بنتی ہے۔ اسی طرح نجی ہاتھوں میں موجود سونے کی مقدار اکتالیس ہزار دو سو ٹن سے زائد بنتی ہے جبکہ باقی ستائیس ہزار ٹن سونا دیگر یا متفرق کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ اندازوں کے مطابق ابھی 54 ہزار ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں اور مستقبل میں یہ سونا بھی قابل حصول ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
ڈبلیو جی سی کے مطابق سونے کے عالمی ذخائر کی مقدار تینتیس ہزار آٹھ سو اکہتر ٹن ہے۔ جرمن ویب سائٹ گولڈ ڈاٹ ڈی ای کے سن دو ہزار بیس کے اعداد و شمار کے مطابق جن ممالک کے پاس سب سے زیادہ سونا ہے، ان میں امریکا آٹھ ہزار ایک سو تینتیس ٹن کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد جرمنی کا نمبر آتا ہے، جس کے پاس تین ہزار تین سو تریسٹھ ٹن سونا موجود ہے۔ تیسرے نمبر پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) آتا ہے، جس کے پاس دو ہزار آٹھ سو چودہ ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔ دیگر سات ممالک کی فہرست کچھ یوں ہے:
Published: undefined
اٹلی: دو ہزار چار سو اکاون ٹن، فرانس: دو ہزار چار سو چھتیس ٹن، روس: دو ہزار دو سو اٹھانوے ٹن، چین: ایک ہزار نو سو اڑتالیس ٹن، سوئٹزرلینڈ: ایک ہزار چالیس ٹن، جاپان: سات سو پینسٹھ ٹن، بھارت: چھ سو تریپن ٹن۔
Published: undefined
Published: undefined
سن دو ہزار تیرہ میں ویٹی کن بینک نے اپنے اثاثے ظاہر کیے تھے اور اس وقت اس کے پاس سونے سے بنے سکوں اور تمغوں کی مالیت تقریباﹰ اکتالیس ملین یورو تھی۔ اس وقت یہ تقریباﹰ ایک اعشاریہ تین ٹن سونا بنتا تھا۔ تاہم سونے کا اصل خزانہ خاص طور پر زیورات اور مذہبی نوادرات کی شکل میں پوری دنیا میں موجود کیتھولک چرچ کے پاس ہے۔ اطالوی مصنف کلاڈیو رینڈینا کے مطابق ایک وقت تھا کہ چرچ کے پاس تیس ہزار ٹن سونا تھا لیکن اب یہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو چکا ہے اور اس سونے کی اصل مقدار کوئی بھی نہیں جانتا۔
Published: undefined
Published: undefined
نجی شعبے میں بھارت کو سونے کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ اندازوں کے مطابق بھارتی خاندانوں کی ملکیت میں پچیس ہزار ٹن تک سونا موجود ہے۔ بھارتی خواتین سونے کے زیورات خاص طور پر پسند کرتی ہیں اور روایتی طور پر اسے قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ عام خاندان اپنی لڑکیوں کی شادیوں پر انہیں سونے کے زیورات تحفے میں دینا لازمی سمجھتے ہیں۔
Published: undefined
بھارت میں سونے کی مذہبی اہمیت بھی ہے۔ اس ملک میں چھ لاکھ سے زائد مندر اور مذہبی مقامات ہیں۔ وہاں لوگ سونا بطور نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اندازوں کے مطابق تقریباﹰ چار ہزار ٹن سونا بھارتی مندروں کی ملکیت ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
اصل میں چین کے پاس کس قدر سونا ہے، اس کے بارے میں بیرونی دنیا اندھیرے میں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے سونا مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ سن دو ہزار تین میں چین نے وہ پابندی ختم کر دی تھی، جس کے مطابق عوام کو سونا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین کے پاس تقریباﹰ انیس سو ٹن سونا موجود ہے۔ تاہم کئی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کے پاس غیراعلانیہ طور پر بیس ہزار ٹن تک سونے کے ذخائر موجود ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ویب سائٹ گولڈ رپورٹر کے مطابق جرمنوں کا شمار دنیا کے ان شہریوں میں ہوتا ہے، جن کے پاس کافی سونا ہے۔ شٹائن بائیز انسٹیٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق جرمنی میں آٹھ ہزار نو سو ٹن سونا نجی ہاتھوں میں ہے اور اس میں سے نصف عام شہریوں نے سونے کے سکوں اور ڈلیوں کی صورت میں خرید کر جمع کر رکھا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سن دو ہزار انیس میں ترکی نے سب سے زیادہ 159 ٹن سونا خریدا۔ اس کے بعد روس اور پولینڈ کا نمبر آتا ہے۔ اس سے قطع نظر، اندازوں کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں ترک گھرانوں کی ملکیت سونا تقریباﹰ پانچ ہزار ٹن بنتا تھا۔ ترک حکومت متعدد مرتبہ اپنے شہریوں کو مختلف طریقوں سے کہہ چکی ہے کہ وہ یہ سونا حکومتی بینکوں کو فروخت کر دیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ ترکی روایتی طور پر انتہائی زیادہ افراط زر والا ملک رہا ہے۔ ترک عوام یہ جانتے ہیں کہ سونا کس طرح مشکل حالات میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
سونے کا سب سے بڑا نجی مالک کون ہے؟ اس سوال کا جواب دینا تقریباﹰ ناممکن ہے۔ اس سوال کے ساتھ ہی انسان قیاس آرائیوں کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ روتھ شیلڈ خاندان کو بینکوں کی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان کی متعدد بینکوں میں شراکت داری اور کمپنی ہولڈنگز کے ساتھ ساتھ نجی املاک کے اثاثوں کا تخمینہ ایک ٹریلین امریکی ڈالر تک لگایا جاتا ہے۔ اتنی رقم سے کئی ٹن سونا خریدا جا سکتا ہے۔ صرف اندازہ ہی ہے کہ اس خاندان کے پاس بھی سونے کی کمی نہیں ہو گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined