سماج

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں

بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب مسلم آبادی کی مذہبی، سماجی شناخت، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں اور دیگر چیزوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنائے جانے کی خبر نا آئی ہو۔

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں
بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں 

ہم بچپن سے تقسیم ہند کے وقت رونما ہوئے واقعات اور مظالم کی داستانیں سن سن کر بڑے ہوئے ہیں لیکن انہی بڑے بزرگوں سے اب اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آج بھارت جن حالات سے گزر رہا ہے، ویسے حالات تو تقسیم ہند کے وقت بھی نہیں تھے۔ چنانچہ جب سے دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی پروردہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتار پارٹی برسراقتدار آئی ہے، تب سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کی دوسری بڑی آبادی کی مذہبی، سماجی شناخت، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں اور دیگر چیزوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنائے جانے کی خبریں نا آتی ہوں۔ ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت کے 2014 ء میں اقتدار میں آنے سے پہلے اس طرح واقعات نہیں ہوتے تھے۔ لیکن ان میں حکومت وانتظامیہ اور پولیس اعلانیہ طور پر ملوث نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حکومتی سطح پر بے عملی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔

Published: undefined

آج صورت حال بالکل برعکس ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور قانون، عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ وفاقی حکمراں جماعت کے بعض وزراء اور اسی جماعت کے زیر اقتدار ریاستوں کے کچھ وزراء اعلی ایسے بیانات دیتے ہیں جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے حالانکہ انہوں نے اسی آئین کا تحفظ کرنے کا حلف اٹھایا ہے۔

Published: undefined

بھارت کا قانون کیا ہے! دنیا کا کوئی بھی قانون کسی عمارت یا جائیداد، وہ بھی جو تعلیم دینے کا مرکز ہو، کو محض شبے کی بنیاد پر بغیر ضابطہ کی کارروائی کے گرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن شمال مشرقی بھارت کی ریاست آسام میں محض ایک مہینے کے اندر ایک نہیں تین تین مدرسوں کو محض دہشت گردی کے شبے میں مہندم کر دیا گیا۔

Published: undefined

اس ریاست میں جہاں مسلم آبادی کا تناسب جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ یعنی تقریباً 35 فی صد ہے۔ ایک عرصہ سے یہاں مسلمانوں پر بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوا ّ کھڑا کر کے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن 2017ء میں جب سے ہندو قوم پرست جماعت یہاں بر سراقتدار آئی ہے، تب سے مختلف انداز سے مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس سے قبل مدرسوں کو برٹش دور سے چلی آ رہی سرکاری گرانٹ یہ کہہ کر ختم کر دی کہ ایک سیکولر حکومت مذہبی تعلیم کے لیے پیسہ نہیں دے سکتی جبکہ ان مدارس میں تمام عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔ اسی طرح مسلم آبادیوں کو ان جگہوں سے زبردستی اجاڑ دیا گیا جنہوں نے سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث دوسری جگہوں پر اپنا آشیانہ بنایا تھا۔

Published: undefined

ریاست کے وزیر اعلی ہیمانتو بسوا سرما نے یہ بھی حکم صادر کیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر کوئی بیرونی امام ان کے علاقہ میں آئے تو اس کے بارے میں پولیس کو مطلع کریں۔ سرما نے یہ دعوی کیا کہ ”جہادی" عناصر اماموں کے بھیس میں ریاست میں داخل ہو رہے ہیں اور ہمیں جب اس بارے میں اطلاع ملتی ہے تو ہم مدرسوں کو ختم کر رہے ہیں۔ جب سے سرما وزیر اعلی بنے ہیں تب سے تقریبا ً 700 مدرسوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

Published: undefined

آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بھی اسلامو فوبیا کے یکے بعد دیگرے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس صوبہ میں تمام ریاستوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی جوچار کروڑ زائد ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ نہ صرف ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے بلکہ وہ فیصلے بھی اسی سوچ کے تحت کرتے ہیں۔ اب ان کی حکومت نے ریاست میں مدارس کے سروے کا حکم دیا ہے جہاں بڑے بڑے اور شہرہ آفاق مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ علماء لکھنو، مدرسہ اصلاح میر، اعظم گڑھ، مظاہرالعلوم سہارنپور وغیرہ واقع ہیں۔ آزادی کے فوری بعد اردو ذریعہ تعلیم اچانک ختم کر نے کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں مدرسے معرض وجود میں آئے ہیں اور پورے ملک سب سے زیادہ مدارس اسی ریاست میں ہیں۔ چنانچہ سروے کے فیصلہ نے مسلمانوں میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کردی ہے۔ جمعیت علماء ہند نے مدارس کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔

Published: undefined

اسی طرح ریاست میں ساڑھے چار سو سالہ بابری مسجد کو تو مندر میں تبدیل کرنے کے بعد ہر تاریخی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ کی مسجد اور دیگر مقامات کی مسجدوں پر مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

Published: undefined

ادھر جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک بھی اسلاموفوبیا کی زد میں ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار والی اس ریاست میں جہاں حجاب معاملہ ابھی سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ عیدگاہوں میں زبردستی گینش کا پنڈال لگانے کی مہم شروع کی گئی۔ ریاست کے دارالحکومت بنگلور کی دو سالہ قدیم عیدگاہ میں گنیش پنڈال لگانے کی کرناٹک ہائی کورٹ نے اجازت تک دیدی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر امتناع لگا دیا۔

Published: undefined

بھارت اسلاموفوبیا کے یہ واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں ہو رہے ہیں، جہاں بی جے پی بر سراقتدار ہے، جس کی سیاست کا محور مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف نفرت پھیلا کر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ اسی منافرانہ سیاست کی کاٹ کرنے کی غرض سے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے اپنے رہنما راہل گاندھی کی قیادت کی ”بھارت جوڑو یاترا‘‘ شروع کی ہے، جس کا آغاز کنیا کماری سے کیا گیا ہے اور کشمیر میں اس کا اختتام عمل میں آئے گا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ یاترا اپنے مقصد میں کس حد کامیاب ہوتی ہے!

(نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined