سماج

افغانستان کی مدد کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟

طالبان کی طرف سے اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں عوام کے لیے مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں طالبان پر لگی امریکی پابندیاں بھی شامل ہیں۔

افغانستان کی مدد کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟
افغانستان کی مدد کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟ 

سردی میں اضافے کے ساتھ ہی افغانستان میں صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جما دینے والے درجہ حرارت عوام کی ان تکالیف میں مزید اضافہ کر رہے ہیں جن کا آغاز امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا اور جو مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

امدادی گروپس اور بین الاقوامی ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ قریب 23 ملین افراد کو، جو ملک کی نصف آبادی بنتی ہے، سخت بھوک کا سامنا ہے جبکہ نو ملین یا 90 لاکھ افراد قحط سالی کے کنارے تک پہنچ چکے ہیں۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ اشیائے خوراک خریدنے کے لیے ذاتی اشیا بیچنے، گھر کو گرم رکھنے کے لیے فرنیچر تک جلانے اور یہاں تک کہ پیسوں کے لیے اپنے بچے تک فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

Published: undefined

امریکی حکومت نے رواں ماہ اعلان کیا کہ وہ افغانستان کو انسانی ہمدری کے نام پر 308 ملین ڈالرز کی امداد دے گی جبکہ وہ اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک جیسے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ مشکلات میں گھرے اس ملک کی عوام کے لیے اضافی مدد کا بندوبست ہو سکے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ طالبان افغان عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

Published: undefined

مگر ساتھ ہی امریکا پر اس حوالے سے مزید اقدامات کا بھی دباؤ ہے کہ وہ افغانستان کی حکومت کے نیویارک کے مرکزی بینک میں موجود منجمد شدہ اثاثوں پر پابندی ختم کرے۔

Published: undefined

افغانستان میں صورتحال اتنی تیزی سے اس قدر خراب کیوں ہوئی؟

اگست 2021ء میں افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل بھی افغان عوام کی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ نصف سے زائد آبادی روزانہ کی دو ڈالرز سے بھی کم آمدنی پر گزارا کر رہی تھی۔ امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے دور میں ملکی بجٹ کا قریب 80 فیصد غیر ملکی امدادی فنڈنگ سے حاصل ہو رہا تھا۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے نصف بچوں کو شدید کم خوراکی کے خطرات کا سامنا تھا جبکہ کووڈ انیس کے سبب ملک میں خشک سالی سے پیدا شدہ صورتحال مزید خراب ہو رہی تھی۔ خیال رہے کہ اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 25 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔

Published: undefined

20 برس تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد امریکی فوجوں کی واپسی کا مطلب تھا کہ افغانستان کو فوجی اور دیگر معاملات میں دی جانے والی امداد کا بھی خاتمہ، جو ملکی معیشت کے قریب نصف کے برابر بنتی تھی۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی زیادہ تر افغان حکومتی اہلکاروں کو دو ماہ سے ان کی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد سے قریب نصف ملین افغان اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں جنہیں طالبان کے حکم پر کام کرنے سے روک دیا گیا۔

Published: undefined

کرنسی کی کمی کے سبب افغان شہری اپنے بینکوں میں موجود رقم کا بھی محدود حصہ ہی نکلوا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ملک سے باہر موجود افغانوں کو وطن میں اپنے رشتہ داروں کو رقوم بھیجنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی ایک وجہ بینکوں کی طرف سے اس ملک کے ساتھ کاروبار میں ہچکچاہٹ بھی ہے جس کے حکمران امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

Published: undefined

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے شعبہ کرائسس ریسپانس کے سربراہ سیاران ڈونیلی کے مطابق مارکیٹ میں خوراک تو موجود ہے مگر بہت سے لوگ اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے: ''یہ انسانی حوالے سے بحرانی صورتحال ہے، ایک معاشی انہدام اور ناکامی کی کیفیت ہے یعنی سب کچھ ایک جگہ جمع ہو گیا ہے۔۔۔ اور یہ سب ایک دوسرے کو بڑھا رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

امریکا ابھی تک مدد کے لیے کیا کر چکا ہے؟

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد بھی افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی افغانستان کو انسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ امداد فراہم کر رہی ہے۔ اور ساتھ ہی وہ اقوام متحدہ کی ان کوششوں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے جس کا مقصد افغانستان کے لیے پانچ بلین ڈالرز کی امداد جمع کرنا ہے۔

Published: undefined

تاہم امریکی حکومت نے نہ تو اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی طالبان اور ان کے سینیئر رہنماؤں پر لگی پابندیوں کا خاتمہ کیا ہے، جو القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کے تناظر میں لگائی گئی تھیں۔ انہی پابندیوں کے سبب یہ احساس پیدا ہوا کہ افغانستان میں رقوم منتقل کرنا یا اس کے سے ساتھ کاروبار کرنے سے مشکل پیش آ سکتی ہے۔

Published: undefined

افغانستان کی کتنی رقم امریکا میں منجمد ہے؟

امریکا کے فیڈرل ریزرو بینک میں افغانستان کے قریب سات بلین ڈالرز کے فنڈز موجود ہیں، جنہیں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد امریکی حکومت نے منجمد کر دیا تھا۔ طالبان اس رقم کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم ان پر لگی پابندیوں کے سبب یہ رقم ان کی حکومت کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ یہ صورتحال اس وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ نائن الیون حملوں میں مرنے والوں کے اہل خانہ نے امریکی عدالت سے رجوع کر لیا ہے کہ اس رقم کو انہیں بطور ہرجانہ دیا جائے۔

Published: undefined

کانگریس کے 41 ارکان کی طرف سے، جن میں سے زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں صدر سے کہا گیا ہے کہ وہ منجمد شدہ اثاثوں کا ایک مناسب حصہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے کاموں پر استعمال کرنے کو یقینی بنائیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خراب ہوتی ہوئی صورتحال اس ملک کو ایک بار پھر القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپوں کا ٹھکانہ بنا سکتی ہے۔

Published: undefined

کیا امریکا اور دیگر ممالک مزید کچھ کر سکتے ہیں؟

امدادی گروپ اور دیگر ادارے امریکی محکمہ خزانہ سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ کاروباری افراد اور حکومتوں کو یقین دہانی کے خطوط لکھے کہ اگر وہ افغانستان میں کاروبار کرتے ہیں تو انہیں کسی طرح کے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، حالانکہ حکام کا کہنا ہے کہ کاروبار کے لیے دیے جانے والے لائسنسوں کا بھی یہی مطلب ہے۔

Published: undefined

امریکی انتظامیہ امریکا سے باہر افغان حکومت کے منجمد شدہ اثاثوں کو جاری کرنے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ افغانستان کی سابق سفارت کار، رویا رحمان کہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو مل کر تخلیقی حل سامنے لانے چاہییں مثال کے طور پر موبائل بینکنگ تاکہ غیر ممالک میں موجود افغانوں کے لیے یہ آسانی ہو سکے کہ وہ اپنے خاندانوں کو رقوم بھیج سکیں۔

Published: undefined

رحمان کہتی ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے جلدی کیا جانا چاہیے: ''بھوک اور تکلیف نا امیدی کو جنم دیتی ہیں... اور نا امیدی شدت پسندی، دہشت گردی اور اس سے بڑی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined