سماج

اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں، ٹرانس جینڈرز

یونان ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے ترقی پسند ملک مانا جاتا ہے۔ 2017ء سے اس ملک میں ایک قانون لاگو ہے جس میں ٹرانس جینڈرزکو اپنی جنس کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کاحق دیا گیا وہ بھی بغیر کسی سرجری کے۔

اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں، ٹرانس جینڈرز
اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں، ٹرانس جینڈرز 

ٹزانس جینڈرز کو روز مرہ کی زندگی میں سخت امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکثر ایسے افراد کے پاس روزگار کمانے کا واحد راستہ جسم فروشی ہوتا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ تک ان کا گزر بسر اسی پیشے سے ہو رہا تھا۔ اب کووڈ انیس کے سبب ان کا یہ کاروبار بھی مکمل طور پر بند پڑا ہے اور یہ انتہائی کسمپرسی اور نا اُمیدی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Published: undefined

رافائیلا کی کہانی

Published: undefined

رافائیلا ایک ٹرانس جینڈر ہیں اور یونان کے بہت سے دیگر ٹرانس جینڈرز کی طرح دارالحکومت ایتھنز میں سیکس ورکر کی حیثیت سے کام کر کے اپنا پیٹ پالتی ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں، ان کے ساتھ اچھوت کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے، ''ہمیں وہ نہیں پڑھنے دیا جاتا جو ہم چاہتے ہیں اس لیے کہ ہم مستقبل میں کسی شعبے میں کوئی روزگار حاصل نہیں کر سکتے۔ نہ ہی کسی اور جگہ بطور شاپ کیپر کے یا کیشیئر وغیرہ کی جاب ہمارے لیے ہے۔ ہماری کمائی کا واحد ذریعہ جسم فروشی ہے۔ ہم اپنی بقا کے لیے اپنا جسم فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘

Published: undefined

رافائیلا کا تعلق یونان کے ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ جب سے انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ وہ اپنی شناخت کو اپنے پیدائشی جنس سے مربوط نہیں کرتیں بلکہ وہ خود کو ایک عورت محسوس کرتی ہیں، تب سے ان کی زندگی یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اُنہیں اسکول میں غنڈہ گردی کا سامنا رہا اور خود اُن کے گھر والوں نے اُن سے مُنہ موڑ لیا۔ وہ کبھی اسکول کی تعلیم مکمل نہ کر سکیں۔ اب وہ ایتھنز کے ایک پسماندہ علاقے کے ایک مخدوش چھوٹے سے گھر میں ایک چھوٹے سے کُتے اور ایک بلی کے ساتھ زندگی بسر کرر ہی ہیں۔

Published: undefined

یونان میں جسم فروشی

Published: undefined

ٹرانس جینڈرز کو ریاست کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ یونان میں گرچہ جسم فروشی چند مخصوص شرائط پر قانونی ہے تاہم اس کے تقاضے اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں بہت مشکل سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ رافائیلا کا کہنا ہے کہ اُن جیسی بہت سی سیکس ورکر غیر قانونی طور پر سڑکوں پر کام کرتی ہیں۔ ان کو نہ تو کوئی معاشرتی تحفظ حاصل ہے نہ ہی انشورنس اور پنشن وغیرہ۔

Published: undefined

کورونا وبا نے ٹرانس جینڈرز کی زندگی کی صورتحال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ انفیکشن کے پھیلاؤ کے خطرے کے سبب جنسی کاروبار بند پڑا ہے۔ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے سیکس ورکرز کے ساتھ حکومت بالکل تعاون نہیں کر رہی۔ اب کورونا کی وبا کو بھی ایک سال ہو گیا بہت سی خواتین اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے سے مجبور ہیں ان کی زندگیاں بہت ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ بے گھر ہو چُکی ہیں اور سڑک پر رہتی ہیں، نہ بجلی میسر ہے نہ پانی۔

Published: undefined

یونان کی ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن جو ایک عرصے سے اپنے اراکین کی سماجی قبولیت کی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے، بد ترین متاثرہ افراد کی مہینے میں دو بار خوراک کے عطیے سے مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر یہ بالکل ناکافی ہے۔ رافائیلا کہتی ہیں، ''میں غیر قانونی کام کرتی ہوں، خوف سے لرزتی ہوئی، میں بھی انسان ہوں، مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ اگر کوئی گاہک کورونا انفیکشن کی ظاہری علامات کے بغیر ہو گا تو مجھے بھی یہ انفیکشن لگ سکتا ہے۔ یہ خوف بھی رہتا ہے کہ کہیں پولیس مجھے نہ پکڑ لے اور کرفیو کے باوجود مجھے باہر نکلنے پر سزا ہو جائے۔‘‘

Published: undefined

رافائیلا کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اُنہیں اپنے گاہکوں کی تلاش رہتی ہے اور اس بات کی امید کہ شاید کبھی یونانی معاشرہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ کشادہ دل ہو جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined