سماج

مجبور انسانیت اور جرمنی کا المیہ

جرمنی نے یونان سے مزید ڈیڑھ ہزار مہاجرین کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک قابل ستائش قدم ہے لیکن ژینس تھوراؤ کے مطابق اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔

تصویر سوشل میدیا بشکریہ ڈی ڈبلو
تصویر سوشل میدیا بشکریہ ڈی ڈبلو 

یونانی جزیرے لیسبوس پر واقع موریا مہاجر کیمپ جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ وہاں گنجائش سے کہیں زیادہ مہاجرین تھے، جن کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اب وہ لوگ لیسبوس کی سڑکوں پر بےآسرا ہیں۔ ان میں سے جرمنی نے پندرہ سو مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے کا فیصلہ کیا۔

Published: undefined

سن 2015 میں بھی جرمن حکومت نے شام، عراق اور لیبیا کی جنگوں سے پناہ کے متلاشی ہزارہا لوگوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس کارِخیر میں پہلے کی طرح اب بھی جرمنی تنہا کیوں نظر آتا ہے؟

Published: undefined

موریا کیمپ کے حوالے سے جرمن حکومت کے تازہ فیصلے کو انسانی ہمدردی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے. لیکن اسے ایک کمزور اور مایوس کن اقدام کے طور پہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

برلن حکومت کے اعلان کے بعد متعلقہ حکام تقریباً چار سو خاندانوں کی جرمنی منتقل کی لوازمات طے کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ مہاجر خاندان لیسبوس کے علاوہ یونان کے دیگر جزیروں سے منتقل کیے جائیں گے۔ ان تمام افراد نے پہلے ہی سیاسی پناہ کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔

Published: undefined

اس معاملے پر جرمنی کا پیغام واضح ہے کہ برلن حکومت مہاجرین کے بوجھ تلے دبی یونانی حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہییے کہ چونکہ کیمپ جل گیا، اس لیے اب ان لوگوں کو آرام سے جرمنی منتقل کردیا جائے۔

Published: undefined

ان پناہ گزینوں میں بے یارومددگار عورتیں، بچے اور مرد شامل ہیں۔ انہیں سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہییے۔ جرمنی کا تازہ فیصلہ پناہ گزینوں سے متعلق یورپی یونین کی اخلاقی اور انسان دوستی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اسے روش نہیں بننا چاہییے۔

Published: undefined

جرمن سیاستدانوں کا بارہا کہنا رہا ہے کہ یورپی یونین کا ہیڈکوارٹر برسلز میں ہے لیکن جب پناہ گزینوں کو لینے کا مسئلہ اٹھتا ہے تو باقی ملک اس کا بوجھ برلن پر ڈال دیتے ہیں۔ اس معاملے پر خصوصاﹰ مشرقی یورپی ممالک ایسے پیٹھ دکھاتے آئے ہیں کہ جیسے ان کا اس انسانی بحران سے کوئی لینا دینا نہیں۔

Published: undefined

جرمن حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی وہ انسانیت کے ناتے اس قسم کے اقدامات اٹھاتی ہے تو ملک میں نسل پرست انتہا پسند اس کی شدید مخالفت میں نکل آتے ہیں اور اپنی سیاسی دوکان چمکاتے ہیں۔

Published: undefined

اسی طرح جرمنی کا ہر چھوٹا یا بڑا اقدام یورپ پر حاوی ہونے کی کوشش سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی کی سیاست میں انسان دوستی اور انسانی اقدار کی بڑی اہمیت ہے لیکن اس کے باوجود اسے بھی دیگر ملکوں کی طرح تنقید کا سامنا رہتا ہے کہ اس کہ قول و فعل میں تضاد ہے۔

Published: undefined

بعض حلقوں کی کوشش ہے کہ سابقہ موریا کیمپ کے پندرہ سو سے زائد مہاجرین کو منتقل کیا جانا چاہییے لیکن ان کی اس خواہش کے آڑے یورپ کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔

Published: undefined

اس سوال کا جواب کئی جہتوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ برلن میں سیاستدانوں کو کوئی امید نہیں کہ ہنگری اور پولینڈ جیسے ملک کسی مشترکہ حکمت عملی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اسی لیے اب ایسے ملکوں کو قریب لانے کی کوشش کی جارہی ہے جو یونان اور اٹلی جیسے ملکوں سے مہاجرین کا بوجھ کم کرنے میں مدد کریں یا مالی معاونت فراہم کریں۔

Published: undefined

ان مشکل اور پیچیدہ حالات میں یورپ میں ایک ایسی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اچھے اور انسان دوست حلقے آگے آئیں۔ انسانیت کا احساس رکھنے والے یہ لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر خطے میں قوم پرستی اور عوامیت پسندی کو پھیلنے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined