سماج

کیوبا، قطاروں میں کھڑے ہونے کا منافع بخش کاروبار

اسٹورز کے سامنے نہ ختم ہونے والی قطاریں کیوبا میں ایک عام رجحان ہیں۔ کورونا بحران کی وجہ سے اس ملک میں بنیادی اشیاء کی فراہمی متاثر ہوئی ہے اور لائنوں میں کھڑا ہونا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی 

کیوبا کے زیادہ تر شہریوں کے لیے دکانوں سے خریداری کرنا ایک 'ڈراؤنے خواب‘ سے کم نہیں رہا۔ اگرچہ حالیہ عرصے میں بنیادی کھانے کی خریداری میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن ریکارڈو بارگن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب اس کے اہل خانہ کو روز مرہ کی زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی بات آتی ہے تو ''سب کچھ مشکل ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ گروسری اسٹورز کے باہر ہر وقت دو سے تین سو لوگ لائن میں لگے ہوتے ہیں، ''اگر آپ مرغی خریدنا چاہتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو سات سے آٹھ گھنٹے ایک قطار میں کھڑا ہونا پڑے۔‘‘

Published: undefined

انسٹھ سالہ ریکارڈو بارگن پیشے کے لحاظ سے ایک کاریگر ہیں۔ اپنی روزی کمانے کے لیے وہ آرٹس اور دستکاری کا کام کرتے تھے۔ لیکن جب سے کیوبا کورونا وبائی مرض سے متاثر ہوا ہے، تب سے وہاں سیاحوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے۔ اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے وہ کوئی بھی مشکل کام کرنے کو تیار رہتا ہے۔

Published: undefined

ہارڈ کرنسی کا ہونا لازمی

Published: undefined

کورونا وباء کی وجہ سے جہاں کیوبا کی معاشی حالت مزید ابتر ہوئی ہے، وہاں غیرملکی ترسیلات میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ وہ امریکی شرائط ہیں، جو کیوبا رقوم بھیجنے کے لیے مزید سخت بنا دی گئی ہیں۔ حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کرنسی اصلاحات کی تھیں۔ لین دین کے لیے ملکی کرنسی 'کیوبن پیسو‘ کی شرط لازمی رکھی گئی ہے۔ اس کرنسی کا کسی دوسری کرنسی میں تبادلہ ممکن نہیں ہے۔

Published: undefined

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مارکیٹ میں کیوبن پیسو کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے اور لائینیں طویل سے طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ ریکارڈو بارگن کا کہنا تھا، ایک لائن گوشت کی لگی ہوتی ہے، اس سے اگلی لائن کوکنگ آئل کی اور یہ لائنیں نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

متبادل کاروبار

Published: undefined

روزانہ خریداری کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر بوڑھے افراد کے لیے، کورونا وباء کے دوران ان کے لیے مزید خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد افراد نے ایک نیا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ یہ لوگ لائنوں میں صبح سویرے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی جگہ کے بدلے پیسے وصول کرتے ہیں۔ یہ کاروبار کرنے والوں کو کیوبا میں 'کولیرو‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

Published: undefined

مارکو جیمز بھی ایک کولیرو ہیں۔ وہ پہلے ایک سرکاری گلاس فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ وہاں ان کی ماہانہ تنخواہ 280 کیوبن پیسو ( تقریبا اٹھارہ سو روپے) تھی لیکن کورونا کی وجہ سے وہ فیکٹری بند ہوئی اور انہیں مجبوراﹰ اس کاروبار میں آنا پڑا۔ اب کسی ایک کلائنٹ کے لیے جگہ مختص کرنے کے عوض انہیں 50 کیوبن پیسو مل جاتے ہیں۔

Published: undefined

کورونا وباء کی وجہ سے حکومت نے لاک ڈاؤن بھی نافذ کر رکھا ہے اور دکانیں کھولنے کے اوقات محدود بنا دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے قطاریں مزید طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ مارکو کہتے ہیں کہ وہ صبح پانچ بجے اٹھ کر ہی دکان کے سامنے اپنا نشان لگا دیتے ہیں اور پھر نیا آنے والا اپنا نشان لگا دیتا ہے۔ اس طرح نو بجے دکان کھولنے سے پہلے ہی وہاں ایک لمبی قطار لگ چکی ہوتی ہے۔

Published: undefined

مارکو کے مطابق اس کے مخصوص کلائنٹ ہیں اور وہ امیر بھی ہیں۔ اب مارکو ہفتہ وار 750 سے 1000 کیوبن پیسو تک کما لیتے ہیں۔ تاہم مارکو کو امید ہے کہ اچھے حالات دوبارہ لوٹ آئیں گے اور وہ دوبارہ کوئی مستقل ملازمت تلاش کر لے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر اب تھک چکا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined