19 سالہ رھف نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ''میری زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی ۔۔۔ کالی چادریں پہننے اور مردوں کی اجارہ داری سے آزاد خاتون ہونا ہے۔‘‘
Published: undefined
رھف نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں اپنا تعارف ایک لبرل، فیمینسٹ، سابق مسلم اور ایک آزاد سعودی عورت کے طور پر کرایا ہے۔
Published: undefined
رھف محمد القنون سعودی عرب میں اپنے اہل خانہ کی طرف سے مبینہ بدسلوکی اور جبری شادی کے منصوبے سے فرار ہو کر جنوری 2019ء میں آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں مگر انہیں تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں حکام نے روک لیا تھا۔ اس کی وجہ ان کے پاس کوئی سفری دستاویزات نہ ہونا تھی کیونکہ بنکاک میں سعودی اہلکاروں نے مبینہ طور پر ان کا پاسپورٹ زبردستی ان سے لے لیا تھا۔ شروع میں تھائی حکام نے انہیں ملک بدر کر کے واپس سعودی عرب بھیجنے کا بھی سوچا لیکن اس امکان کی انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرف سے شدید مخالفت کی جانے لگی تھی۔ جس کے بعد گزشتہ برس جنوری میں کینیڈا نے رھف محمد القنون کو پناہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
Published: undefined
کینیڈا کے سی بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے رھف نے بتایا تھا کہ ان کے گھر والوں نے محض اس وجہ سے انہيں چھ ماہ تک قید رکھا کيونکہ انہوں نے اپنے بال کاٹ کر چھوٹے کر لیے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہيں اکثر مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، خاص طور پر ان کے بھائی اور والدہ کی طرف سے۔ رھف کے مطابق کئی مرتبہ تو وہ خون و خون ہو جاتی تھیں۔ رھف کے بقول انہيں کینیڈا میں بھی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined