سماج

روسی کمپنی نے مصر کے پہلے جوہری پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی

روس میں جوہری توانائی کے ادارے روساٹوم نے کئی برس کی تاخیر کے بعد مصر کے پہلے جوہری پاور پلانٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ 1950 کی دہائی کے بعد یہ ’روس اور مصر کے درمیان تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ‘ ہے۔

روسی کمپنی نے مصر کے پہلے جوہری پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی
روسی کمپنی نے مصر کے پہلے جوہری پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی 

ایٹمی توانائی کے روسی ادارے روساٹوم اور قاہرہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کے مطابق روساٹوم کارپوریشن نے مصر میں اس عرب ریاست کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی ہے۔

Published: undefined

مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پانچ برس قبل مصر کے شمالی ساحل پر واقع الدّبا میں اس جوہری پلانٹ کی تعمیر سے متعلق ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

Published: undefined

روسی نیوکلیئر انرجی کمپنی روساٹوم کے سربراہ الیکسی لیکاشیف اور مصر کے وزیر توانائی محمد شاکر نے بدھ بیس جولائی کے روز مشترکہ طور پر اس پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ محمد شاکر نے اس کو مصر کے لیے ایک ’تاریخی واقعہ‘ قرار دیا۔ لیکاشیف نے اس موقع پر کہا کہ اب مصر بھی ’جوہری کلب میں شامل‘ ہو گیا ہے۔

Published: undefined

مصر کا ایٹمی توانائی کا پہلا پلانٹ

مصری میڈیا کے مطابق اس پروجیکٹ کے لیے ادائیگی روسی قرضے سے کی جائے گی اور اس منصوبے پر تقریباً 25 ارب یورو کی لاگت آئے گی۔ یہ پلانٹ 1200 میگا واٹ کے چار ری ایکٹروں پر مشتمل ہو گا۔

Published: undefined

اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پلانٹ کی تعمیر کب مکمل ہو گی۔ سن 2017 میں جب السیسی اور پوٹن نے اس بارے میں معاہدے پر دستخط کیے تھے، تو اس وقت روساٹوم نے سن 2028 یا 2029 تک اس کی تعمیر کو مکمل کرنے کی بات کی تھی۔ لیکن اس پلانٹ کی تعمیر کے آغاز میں ہی کئی برسوں کی تاخیر پہلے ہی ہو چکی ہے۔

Published: undefined

بیان کے مطابق الدّبا پلانٹ میں بھی اسی نوعیت کے پریشر واٹر ری ایکٹر استعمال کیے جائیں گے، جو روس کے بعض معروف جوہری پاور پلانٹس میں بھی نصب ہیں۔

Published: undefined

قاہرہ نے سب سے پہلے سن 1980 کی دہائی میں الدّبا میں جوہری پلانٹ کی تعمیر پر غور کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب سن 1986 میں چرنوبل کی جوہری تنصیب گاہوں میں حادثہ پیش آیا، تو اس کے بعد اس منصوبے کو معطل کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر صدر السیسی نے جب سن 2014 میں اقتدار سنبھالا تو اس کے بعد انہوں نے متعدد میگا پروجیکٹس کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

Published: undefined

السیسی کے دور حکومت میں مصر نے اپنے ہاں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو تیزی سے بڑھانے پر کام کیا ہے۔ جرمن کمپنی سیمینز کی طرف سے تیار کیے گئے گیس سے چلنے والے پلانٹس کا بھی اس میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ مصر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو بجلی کی برآمدات بڑھانے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے۔

Published: undefined

رواں برس مصر ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک سربراہی اجلاس کے میزبانی بھی کرنے والا ہے اور اس حیثیت میں وہ سن 2030 تک تقریباﹰ 40 فیصد اور سن 2035 تک 42 فیصد تک بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرنے کے لیے اپنی صلاحیت میں اضافے کا خواہش مند بھی ہے۔

Published: undefined

روس اور مصرکے تعلقات

اس پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پر لیکاشیف نے کہا، ’’اسوان ہائی ڈیم کے بعد یہ پلانٹ روس اور مصر کے درمیان تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا۔‘‘ وہ تقریبا 111 میٹر بلند اور 3.6 کلومیٹر چوڑے اس ڈیم کا حوالہ دے رہے تھے، جو پن بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لیے دریائے نیل کے پانیوں کو استعمال کرتا ہے۔

Published: undefined

اسوان ہائی ڈیم سوویت یونین کے تعاون سے جنوبی مصر میں بنایا گیا تھا۔ سن 1950 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر کا یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔

Published: undefined

روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا، تو اس وقت سے مصر نے باضابطہ طور پر کسی ایک بھی فریق کے حق میں کوئی بات نہیں کی۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آئندہ دنوں میں قاہرہ جا رہے ہیں، جہاں وہ 22 رکنی عرب لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

Published: undefined

ان تمام کوششوں کے باوجود صدر السیسی نے مغربی ممالک کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین نے بھی مصر اور اس کے پڑوسی ملک اسرائیل کا رخ کیا تھا تاکہ روس سے قدرتی گیس کی درآمدات پر یورپی یونین کا انحصار کم کیا جا سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق مصر سن 2020 میں اسرائیل اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ امریکی فوجی امداد حاصل کرنے والا ملک تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined