سماج

بنگلہ دیش میں کورونا وائرس، مذہب کیسے مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟

ڈی ڈبلیو بنگالی سروس کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا، جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے مذہب کے مثبت کردار کو موضوع بنایا گیا۔

بنگلہ دیش میں کورونا وائرس، مذہب کیسے مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
بنگلہ دیش میں کورونا وائرس، مذہب کیسے مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ 

مذہبی رہنماؤں کی جانب سے عوام میں کورونا وائرس کی وبا سے متعلق شعور و آگہی کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاقی معاونت فراہم کرنا وہ شعبے ہیں، جو اس عالمی وبا سے نمٹنے میں مثبت ثابت ہوئے ہیں۔ اس مذاکرے میں مختلف مذہبی رہنماؤں کے علاوہ مسلم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن بھی شریک ہوئیں۔ ڈھاکا میں منعقدہ اس مذاکرے میں بنگلہ دیش میں کورونا وائرس کی وبا کے انسداد کے لیے مذہبی حلقوں کی مدد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

Published: undefined

مذاکرے کے شرکاء کے مطابق سماجی فاصلہ، حفظان صحت اور متاثرہ افراد کی مدد، وہ اہم ذمہ داریاں ہیں، جو مذہب اپنے پیروکاروں پر عائد کرتے ہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ وبا جیسی ایمرجنسی صورت حال میں کوئی خاص مذہب نہیں بلکہ تمام انسان متاثر ہوتے ہیں۔

Published: undefined

مذہبی رہنماؤں کی کاوشیں

Published: undefined

رواں برس مارچ کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیش میں کووِڈ انیس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔ اب تک بنگلہ دیش میں چار لاکھ افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ہے۔ وبا کے آغاز پر اس مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی اجتماعات جاری رہے۔

Published: undefined

بنگلہ دیش میں قومی ادارہ برائے رسدگاہی ادویات اور ریفرل سینٹر کے ڈائریکٹر اے کے ایم شمس الزمان کے مطابق، '' ابتدا میں لوگ ابہام اور خوف کا شکار تھے۔ مذاکرے کے شرکاء کے مطابق اسی پریشانی کے عالم میں حکام کے لیے صحت سے جڑے ضوابط کا نفاذ آسان نہیں تھا۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا، ''آٹھ مارچ کو جب پہلے شخص میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی اور پھر ایک یا دو ہفتے بعد جب ایک مریض ہلاک ہوا، ہر کسی کو صدمہ پہنچا۔‘‘

Published: undefined

حکومتی مذہبی تنظیم اسلامک فاؤنڈیشن سے وابستہ مفتی ولی الرحمان خان نے بھی اس بات کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا، ''دیہات کے لوگ اتنے خوف زدہ تھے کہ انہوں نے مسجد عام حالات کے مقابلے میں زیادہ جانا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے اس کا مقابلہ اخلاقی تعلیم سے کیا۔‘‘

Published: undefined

مفتی خان نے پینل میں ایک پوسٹر کا ماڈل شیئر کیا، جس پر پیغمبر اسلام کی وبائی حالات سے نمٹنے سے متعلق حدیث درج تھی۔

Published: undefined

خان نے بتایا کہ ایسے پوسٹر ملک بھر کی مساجد میں تقیسم کیے گئے تاکہ وبا سے متعلق مختلف مقامی مبلغوں کی ہاتھوں پھیلنے والی غلط معلومات کا راستہ روکا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض مذہبی مبلغوں نے وبا سے جڑی سختیوں اور اجتماعات پر پابندیوں کا مذاق بھی اڑیا تھا۔ یہ مذہبی افراد مساجد کی بندش کے بھی خلاف تھے۔

Published: undefined

ان کا کہنا تھا کہ مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے وہ ملک بھر کی تین لاکھ مساجد کو کنٹرول کرتے ہیں اور اس دوران واٹس ایپ کے ذریعے وزارت مذہبی امور کی جانب سے مہیا کردہ تازہ معلومات کو فوری طور پر ان تمام مساجد تک پہنچایا جاتا رہا۔

Published: undefined

خواتین کا خصوصی کردار

Published: undefined

اس وبا نے عوامی صحت کے شعبے میں خواتین کے کلیدی کردار کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ایشیا پیسیفک یونیورسٹی ڈھاکا سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر برائے قانون و انسانی حقوق عزیز النہار نے مذاکرے میں کہا کہ ملک کے نظام صحت کے شعبے میں خواتین کی اکثریت کام کرتی ہے اور اسی وجہ سے اس وبا کا بوجھ بھی انہیں پر زیادہ پڑا۔

Published: undefined

ان کا کہنا تھا، ''صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں میں ستر فیصد خواتین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند تھے، یہ خواتین اس وائرس سے لڑ رہی تھیں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے اسلامی تاریخ سے بھی خواتین کی مختلف شعبہ ہائے جات میں خدمات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائے اسلام کے وقت بھی خواتین میدانِ جنگ میں طبیب اور طبی کارکن کے طور پر خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔ ''خواتین نے چودہ سو برس قبل بھی اسی طرح کی خدمات انجام دیں۔‘‘

Published: undefined

مذہبی اقلیتیں بھی آگے آگے

Published: undefined

اس مذاکرے میں شریک بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچین یونٹی کونسل کے رکن کاجل دیبناتھ نے کہا کہ بنگلہ دیش میں نرسوں کی بڑی تعداد ہندو، مسیحی اور دیگر اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وبا کے وقت تمام افراد نے ہر مذہب سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کی مدد کی۔

Published: undefined

ان کا کہنا تھا، ''بنگلہ دیش کو ایک قدامت پسند ملک سمجھا جاتا ہے، یا تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ملک بہت سے مذہبی خانوں میں ٹوٹا ہوا ہے، مگر ہماری لڑکیوں نے انقلاب برپا کیا۔ ‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined