سماج

غربت اور مایوسی سے جسم فروشی کا آغاز

مالدووا میں غربت اور مایوسی کی وجہ سے جسم فروشی پر مجبور سیکس ورکرز کی بڑی تعداد کو اپنا گھر چلانے کے لیے تشدد اور ذلت کا سامنا ہے۔

غربت اور مایوسی سے جسم فروشی کا آغاز
غربت اور مایوسی سے جسم فروشی کا آغاز 

جنوبی مالدووا کی گلیوں میں کام کرنے والی ایک مقامی سیکس ورکر کے مطابق، ''ظاہری طور ہر مہذب اور دلکش نظر آنے والا اصل میں حیوان بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اس خاتون اور ان کی دو ہم پیشہ دوستوں نے بتایا کہ یہ کام کس قدر خطرناک ہے۔ انہوں نے اس گفتگو کے دوران مالدووا میں جسم فروش خواتین کے ساتھ ہونے والے تشدد، قتل اور اغوا کے بے شمار خوفناک واقعات بیان کیے، ''انہوں نے ماریانا کو پھانسی دی جبکہ نتاشا کو ڈبو دیا، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ آیولیا کس طرح مری۔‘‘

Published: undefined

خوف، تشدد اور ذلت کی زندگی

تین ملین سے کم آبادی پر مشتمل اس سابقہ سوویت ریاست کا شمار یورپ کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ ملک کی تقریبا ایک تہائی خواتین سیکس ورکرز دارالحکومت کیشیاؤ میں سرگرم ہیں جبکہ مرد جسم فروشوں کے حوالے سے اعداد وشمار موجود نہیں۔

Published: undefined

مالدووا میں جسم فروشی غیر قانونی دھندہ ہونے کی وجہ سے خواتین سیکس ورکر کسی قسم کے حکومتی تحفظ پہ انحصار نہیں کر سکتیں۔ دوسری طرف جب بھی سرکار کو اُن کے آمدنی کے وسائل کی اطلاع ملتی ہے یا وہ جسم فروشی کے دوران پکڑی جاتی ہیں تو انہیں اٹھاسی سے ایک سو اٹھارہ یورو تک کا جرمانہ بھی دینا پڑ جاتا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کے دوران ان سیکس ورکر خواتین نے پولیس کے ہاتھوں ذلت، خوف اور ہراسانی کی بھی شکایت کی۔ گاہکوں کی گالیوں، تشدد اور تذلیل کا نشانہ بننے والی ان خواتین کے مطابق اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے اُن کے پاس جسم فروشی کا راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔

Published: undefined

مالدووا میں پانچ یورو میں جسم خریدا جا سکتا ہے

دارلحکومت کیشیاؤ کے ایک انڈسٹریل علاقے میں واقع میں پانچ کلومیٹر تک سڑک کے دونوں جانب خواتین سیکس ورکرز گاہکوں کے انتظار میں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ یہ سڑک جسم فروش خواتین کے مختلف گروپوں نے کاروبار کے لیے آپس میں تقسیم کر رکھی ہے۔

Published: undefined

نئی آنے والی خواتین کے لیے یہاں کام اتنا آسان نہیں۔ بیس برس سے سیکس ورکر کام کرنے والی ایک خاتوں کے مطابق چونکہ مرد ہمیشہ سیکس کے لیے جوان عورت کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اس لیے گاہکوں کو لبھانے اور روٹی روزی کمانے کی خاطر وہ ان کم عمر جسم فروش لڑکیوں کو یہاں سے بھگا دیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یوکرائن کی جنگ کے بعد یوکرائنی خواتین کی بڑی تعداد یہاں جسم فروشی میں سرگرم ہے، جن کے پاس کاروبار کے لیے دلال بھی موجود ہیں۔ تاہم دیگر خواتین کے مطابق مالدووا میں جسم فروش خواتین دلالوں کے بجائے اپنے ریٹ اور شرائط خود طے کرتی ہیں۔

Published: undefined

اگرچہ لگژری ایسکورٹ (مہنگی جسم فروش) ایک رات کے سینکڑوں یورو کما لیتی ہیں جبکہ سڑکوں پہ کھڑی سیکس ورکرز کی کمائی دس سے پچیس یورو ہوتی ہے۔ جتنا چھوٹا علاقہ اتنی ہی کم کمائی۔ مالدووا میں پانچ یورو کے عوض بھی کسی جسم فروش کا جسم خریدا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

امتیازی سلوک اور معتصبانہ رویے

چالیس سالہ ایک سیکس ورکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چھوٹے علاقوں میں تو جسم فروش خواتین کے لیے زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسے علاقوں میں کوئی پہچان لے تو ذلت و رسوائی کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس خاتون نے بتایا کہ ایسے علاقوں میں پیسے بھی کم ہی ملتے ہیں اور جسم فروشوں کے کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے انہیں زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیتی ہے۔

Published: undefined

مالدووا میں جسم فروش خواتین سے متعلق سماجی تعصبات پر مبنی ایک حالیہ سروے کے مطابق 88 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ سیکس ورکر کے قریب جانا بھی پسند نہیں کریں گے۔ یہ خواتین اس کام سے اس لیے وابستہ ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہِ معاش نہیں۔ ایک ہم عمر سیکس ورکرز گروپ کے خیال میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جسم فروشی سے پیسے کمانا بہت آسان ہے، اُنہیں ذرا سا بھی اندازہ نہیں کہ ایک جسم فروش عورت کے دل و دماغ پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔

Published: undefined

ریاستی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے مالدووا میں جسم فروشوں کی صحت کے مسائل بھی شدید ہیں۔ چونکہ یہ خواتین چھپ کر دھندہ کرتی ہیں، اس لیے انہیں کوئی بیماری لاحق ہو جائے تو وہ آسانی سے آگے بھی منتقل ہو جاتی ہے۔ ان میں غیر محفوظ سیکس سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں کی طرح ایچ آئی وی اور ایڈز جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

دوہری زندگی بسر کرنے پر مجبور

جہاں مالدووا کی سڑکوں پر جسم فروش خواتین جا بجا نظر آتی ہیں، وہیں مالی مسائل کا شکار کچھ خواتین نے اپنے گھروں میں ہی جسم فروشی کے اڈے بنا رکھے ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں، جو اپنی شناخت عام نہیں کرنا چاہتیں۔ بظاہر ایک عام زندگی بسر کرنے والی یہ خواتین چھپ چھپ کر یہ کام کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے معاشی مسائل حل کر سکیں۔ ان میں اسٹوڈنٹس بھی شامل ہیں اور شادی شدہ ایسی خواتین بھی، جو اپنے شوہر کی کمائی سے گھر کا خرچہ چلانے کے قابل نہیں۔ اس لیے وہ مجبور ہیں کہ اپہنے ہی اپارٹمنٹس یا گاہکوں کے گھروں میں جا کر کچھ پیسے کما لاتی ہیں۔

Published: undefined

دو بچوں کی ماں ڈیانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اچھی ماں ہیں، ''میں ایک دوہری زندگی بسر کر رہی ہوں۔ ایک زندگی کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن دوسری کے بارے میں صرف گاہکوں کو ہی علم ہے۔‘‘

Published: undefined

جرمانے ایک الگ مسئلہ

کچھ عورتیں جسم فروشی کے دوران پکڑے جانے پر پولیس کو جرمانہ بھی ادا کرتی ہیں۔ گزشتہ چھبیس سال سے جسم فروشی کا کام کرنے والی لاریسا جیسی خواتین البتہ ان جرمانوں سے بچ جاتی ہیں۔ لاریسا کا تعلق ٹرانس نسٹریا کے علاقے سے ہے، جو روس کی مدد سے 1992 میں مالدووا سے الگ ہو گیا تھا۔ چونکہ ان کے پاس مالدووا کا پاسپورٹ نہیں ہے، اس لیے انہیں اس طرح کے جرمانے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Published: undefined

دوسری جانب ایریڈا کے لیے روز کے جرمانے ایک حقیقی مسئلہ ہیں۔ وہ 200 سے زیادہ جرمانے رقم ادا کر چکی ہیں۔ وہ آٹھ مہینے کی حاملہ ہیں، لیکن وہ پھر بھی جسم فروشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دو بچوں کی ماں ایریڈا کے شوہر منشیات کے کاروبار کے الزام میں جیل میں قید ہیں،''میرا شوہر شائد پندرہ برس بعد رہا ہو گا، اس لیے مجھے خود ہی بچوں کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی‘‘۔

Published: undefined

مالدووا کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی بہت سی سیکس ورکرز نے بھی سڑکوں پر نابالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ایک سیکس ورکر نے بتایا کہ سب سے کم عمر لڑکیاں صرف 12 سال کی ہیں، ''پولیس اس سے واقف ہے۔ سماجی کارکن بھی شاید جانتے ہی ہیں، لیکن انہیں بچانے کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ''میرے خیال میں مردوں میں بھی کچھ بنیادی اخلاقیات ہونا ہی چاہیے۔‘‘

Published: undefined

(یہ مضمون جمہوریہ مالدووا میں صحافیوں کی ایک ٹیم کی طرف سے وسیع اور طویل المدتی تحقیق کا نتیجہ ہے، جس میں دارالحکومت میں ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار وائلٹا کولسنک بھی شامل ہیں۔ صحافیوں نے ملک بھر کے مختلف قصبوں اور شہروں سے تعلق رکھنے والی چالیس سے زیادہ سیکس ورکرز سے بات کی۔ یہ مضمون پہلی مرتبہ رومانیئن زبان میں شائع کیا گیا۔)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined