سماج

طاہر القادری نے سیاست چھوڑی: ’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

طاہر القادری نے سیاست چھوڑ دی: ’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘
طاہر القادری نے سیاست چھوڑ دی: ’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘ 

یہ اعلان ایک ایسے موقعے پر سامنے آیا ہے جب ملک کے سیاسی حلقوں میں شریف فیملی کے ساتھ ڈیل کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اور پاکستان میں عمران حکومت کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

ہفتے کے روز لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع 'منہاج القرآن سیکریٹریٹ‘ میں کینیڈا سے ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ وہ اپنی خرابی صحت اور اپنی مذہبی و اصلاحی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے سیاست کو خیرباد کہ رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقعے پرایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ان کے دوبارہ ملکی سیاست میں واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی علیحدہ ہورہے ہیں، اپنے بیٹوں میں سے کسی کو پارٹی کی کمان نہیں دیں گے، اور نئی قیادت کا فیصلہ پارٹی کی شوریٰ کرے گی۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

ماڈل ٹاؤن حادثے سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر قانونی جنگ جاری ہے اور وہ مرتے دم تک جاری رہے گی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ موجودہ حکمرانوں نے دھرنوں کے دوران اور اس کے بعد بھی وعدے کیے تھے کہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلوائیں گے، لیکن وہ متاثرین آج بھی انصاف کو ترس رہے ہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

ڈاکٹر طاہراالقادری نے گلہ کیا کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہاں صرف بدمعاش لوگوں کی جگہ ہے جو پارٹیوں سے ٹکٹ خریدتے ہیں اور اپنے پیسے سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جس پارٹی کا سورج طلوع ہونے والا ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور90 فیصد وہی افراد دوبارہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ایسے افراد کا آئین پاکستان، قوم، اخلاقیات، امانت و دیانت کے ساتھ کوئی عزم نہیں ہوتا، وہ صرف لوٹ مار کے لیے اقتدار لیتے ہیں۔‘‘

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

طاہر القادری کے مطابق اب تک احتساب کے عمل میں جو کچھ ہوا ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب نئے لوگوں کا امتحان ہے کہ وہ جس تبدیلی کا ذکر کرتے تھے اس پر وہ کہاں کھڑے ہیں، کتنی تبدیلی لاسکے ہیں اور کتنی لاسکیں گے؟

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

پاکستان کے سینئر صحافی اور ڈیلی دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاست چھوڑنے کا قادری صاحب کا یہ فیصلہ بہت حیران کن ہے۔ ان کے بقول، ''طاہر القادری کی مذہبی اور اصلاحی سرگرمیاں اس وقت بھی جاری تھی اور ان کی صحت بھی اس وقت ٹھیک نہ تھی جب وہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنا دے رہے تھے، اور ماڈل ٹاؤن واقعے کے بعد تو انہوں نے حکومت مخالف احتجاج کو عروج پر پہنچائے رکھا۔ اس لیے اس سوال کا جواب آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا کہ طاہرالقادری کے اس فیصلے کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے۔‘‘

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

معروف صحافی طلعت حسین نے اپنی ایک ٹویٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 'مقاصد کے حصول کے بعد دریا برد کر دیا جانے والا ہر کارتوس یہی سمجھتا ہے کہ وہ خود سے ریٹائر ہو رہا ہے‘۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کے جانے سے پاکستان کے بالادست طبقے جمہوری حکومتوں کے خلاف استعمال کی جانے والی ایک موثر آواز سے محروم ہو جائیں گے۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

سلیم بخاری کے مطابق طاہرالقادری صاحب نے اپنے پیچھے کوئی موثر لیڈرشپ پیدا نہیں ہونے دی اس لیے ان کے جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے پاکستان عوامی تحریک میں ماضی جیسی طاقت باقی نہیں رہے گی۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

سلیم بخاری کا کہنا تھا، ''پاکستان کی موجودہ سیاست میں طاہر القادری کا کوئی رول باقی نہیں رہا تھا۔ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کو انصٓاف نہیں مل سکا، حکومتی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ ان لوگوں کی بات میں بھی وزن ہو سکتا ہے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔‘‘

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

پاکستان کے ایک اور سینیئر صحافی طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طاہرالقادری کی شخصیت میں مستقل مزاجی کا فقدان رہا ہے۔ ملک کا کہنا تھا، ''وہ انتخابی سیاست میں آنے جانے کے اعلانات کرتے رہے ہیں۔ کبھی وہ انتخاب کی بات کرتے تھے اور کبھی انقلاب کا پرچم تھام لیتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں اب ان کا رول باقی نہیں رہا تھا۔ اب تو دھرنے، لانگ مارچ اور احتجاج کی طاقت بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس چلی گئی ہے۔‘‘

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

طاہر ملک کے مطابق، ''طاہرالقادری کی طاقت ان کے مدرسے تھے وہ کبھی بھی پاکستان کی 'پاپولر پالیٹیکس‘ کا حصہ نہیں رہے تھے۔ پاکستان کے عوام بہت مذہبی تو ہیں لیکن وہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے۔ طاہرالقادی کی سیاست سے ریٹائرمنٹ نے اسی حقیقت کو ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے۔‘‘

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

ایک سوال کے جواب میں طاہر ملک کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کے مقدمات کو منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر سیاست سے ریٹائر ہو کر طاہرالقادری کا کینیڈا میں جا بسنا ان کی لیڈرشپ پر سوالیہ نشان ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 7:11 AM IST