سماج

خواتین ڈاکٹرز کی بے روزگاری: اسباب کیا ہیں؟

گیلپ پاکستان اور ’پرائیڈ‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کر رہیں۔

خواتین ڈاکٹرز کی بے روزگاری: اسباب کیا ہیں؟
خواتین ڈاکٹرز کی بے روزگاری: اسباب کیا ہیں؟ 

34 سالہ کنول عباد نے بہت محنت سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی تعلیم حاصل کچھ برس پہلے مکمل کی، لیکن پھر پہلے شادی اور بعد میں امور خانہ داری کی وجہ سے وہ اپنا پروفیشن نہیں اپنا سکیں۔ شادی کے بعد اپنے پروفیشن کی جاب ان کے لیے صرف ایک خواب ہی رہ گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے اپنے سسرالیوں کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ مجھے کام کرنے کی اجازت دیں لیکن کام کرنے کی اجازت نہیں ملی اور بچوں کی پیدائش کے بعد میں گھر کے کام کاج میں لگ گئی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ میری ساری محنت، سرمایہ اور قیمتی وقت ضائع ہوا۔‘‘

Published: undefined

کنول کے خیال میں ثقافتی اور سماجی اقدار خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ صرف کنول کی ہی کہانی نہیں بلکہ پاکستان میں کئی ایسی خواتین ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا توجاب نہیں کرتیں یا پھر تعلیم کو آخری مراحل میں ترک کر دیتی ہیں۔

Published: undefined

گیلپ پاکستان اور 'پرائیڈ‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کر رہیں۔ اس تحقیق نے اپنے نتائج کی بنیاد سروے 2020-21 پر رکھی ہے اور لیبر مارکیٹ پر پاکستانی ادارہ شماریات کے ڈیٹا کو پیش نظر رکھ کر اس کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تحقیق میں خصوصی توجہ خواتین میڈیکل گریجویٹس پر دی گئی ہے۔

Published: undefined

اس تحقیق کے دوران 99 ہزار گھرانوں سے ڈیٹا جمع کیا گیا اور جس کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ 36 ہزار خواتین ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا مختلف وجوہات کی بنیاد پر لیبر فورس کا حصہ بننا نہیں چاہتیں۔اس سروے کے مطابق ملک میں خواتین ڈاکٹرز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چار ہزار نو سو چوہتر ہے۔

Published: undefined

اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کرنے والی ڈاکٹر سبین عابد خان کا کہنا ہے کہ خواتین کے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری ہے، جس کی وجہ سے ان کی پروفیشنل گروتھ متاثر ہوتی یا پھر انہیں اپنے پروفیشن میں کام کرنے کا بھرپور موقع نہیں مل پاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ بہت مشکل ہے جبکہ خواتین کے لیے شفٹوں کے حوالے سے بہت زیادہ چوائس نہیں ہے، کیونکہ ان پر گھر کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑتی ہے اس لیے شفٹوں میں جاب کرنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

تاہم کراچی ڈینٹل اینڈ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی طالبہ سیدہ تحریم شہزاد کا کہنا ہے کہ مردوں کی سوچ خواتین کی پروفیشنل گروتھ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے کے قریب ہوں، اس کے بعد ہاؤس جاب ہوگی لیکن مجھے اور میری کلاس فیلوز کو یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ آیا ہمیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد کام کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔‘‘

Published: undefined

سیدہ تحریم شہزاد کے مطابق دور دراز علاقوں میں تقرری اور مرد اور عورت کا ساتھ کام کرنا مختلف عوامل میں سے چند ایک ہیں، جن کی وجہ سے پاکستانی خاوند اپنی بیویوں کو نوکری کرنے نہیں دیتے۔ سیدہ تحریم شہزاد کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے خواتین میں اسپیشلائزیشن کی طرف بھی جانے کا بہت زیادہ رجحان نہیں ہے: ''آپ کو زیادہ تر خواتین گائناکالوجسٹ یا چائلڈ اسپیشلسٹ ملیں گی کیونکہ ان شعبوں میں مرد ڈاکٹرز یا اسٹاف کی نسبتاﹰ موجودگی کم ہوتی ہے. لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ انتہائی با صلاحیت خواتین جو دماغی یا دوسرے امراض کی ماہر بننا چاہتی ہیں وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔‘‘

Published: undefined

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ بہت سارے والدین جب بچیوں کو میڈیکل کالجز میں داخلہ دلاتے ہیں تو ان کے ذہن میں پروفیشنل گروتھ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر اشرف نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں یہ رجحان ہے کہ والدین بچیوں کو میڈیکل کالجز میں اس لیے بھی داخل کرواتے ہیں ان کی بچیوں کو بعد میں اچھے رشتے مل جائیں گے۔‘‘ ڈاکٹر اشرف نظامی کا مزید کہنا تھا ہسپتالوں کا مجموعی ماحول بھی ایسی خواتین ڈاکٹرز کی پروفیشنل گروتھ میں رکاوٹ ہے۔

Published: undefined

پاکستان میں سماجی اور ثقافتی اقدار بہت مضبوط ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ اس مسئل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جن خواتین کی پروفیشنل پریکٹس میں شادی یا معاملات کی وجہ سے وقفہ آ جاتا ہے ان کو اجازت دی جانا چاہیے کہ وہ کچھ برسوں بعد اپنا پروفیشن جوائن کریں۔‘‘

Published: undefined

تاہم ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ یہ وقفہ بہت طویل نہیں ہو سکتا: ''اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیکل سائنس میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ نئی دوائیں اور ویکسینز آ رہی ہیں، طویل وقفے کی صورت میں کسی خاتون ڈاکٹر کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ اتنے لمبے عرصے کی رخصتی کا ازالہ کر سکے۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ بہت ساری بچیاں اسکول میں ہی یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ انہیں میڈیکل سائنس پڑھنا ہے لیکن اس پروفیشن کے حوالے سے انہیں چیلنجز کا علم نہیں ہوتا اور انہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ رہائش سمیت اس پروفیشن میں کئی چیلنجیز ہیں۔

Published: undefined

سابق مشیر صحت کا خیال ہے کہ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں، جنہیں حل نہیں کیا جا سکے: ''ہم نے اپنے دور حکومت میں میڈیکل انشورنس متعاراف کرائی، جس سے نئے ڈاکٹرز کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور بہت ساری خواتین نے نوکریاں بھی حاصل کیں۔ زیادہ مواقع، لچکدار شفٹیں اور طویل رخصتی کی اجازت سمیت کئی ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جن سے یہ مسائل حل کیے جا سکیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined