سماج

امریکا میں مظاہرے: نسل پرستی تو یورپ کا بھی مسئلہ ہے

یورپی یونین پر نسل پرستی کے تناظر میں انگلی اٹھانے کی گنجائش قدرے کم ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں بھی نسلی امتیاز اور تشدد کسی حد تک پایا جاتا ہے۔

امریکا میں مظاہرے: نسل پرستی تو یورپ کا بھی مسئلہ ہے
امریکا میں مظاہرے: نسل پرستی تو یورپ کا بھی مسئلہ ہے 

یونانی غیر منافع بخش تنظیم ڈیلفی اکنامک فورم پر یورپی یونین کے کمشنر برائے یورپی طرز حیات مارگاریٹس اسکیناس کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے نتائج اب مثبت آنا شروع ہو چکے ہیں اور یورپ میں امریکا کی طرح نسلی تعصب کی صورت حال موجود نہیں ہے۔ ویڈیو لنک پر انہوں نے واضح کیا کہ اس کی وجہ یورپ میں امریکا کے مقابلے میں بہتر سماجی انضمام، تحفظ اور ہیلتھ کیئر کی سہولیات میّسر ہیں۔ اسکیناس نے اپنی گفتگو میں اس کا اعتراف کیا کہ یورپی یونین کو اس صورت حال میں مزید مؤثر اقدامات درکار ہیں تا کہ مساوات اور معاشرتی انضمام میں بہتری پیدا کی جا سکے۔

Published: undefined

یورپی یونین میں نسلی تعصب کے تناظر میں سب سے زیادہ پریشانی روزگار کی منڈی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے غیر یورپی افراد کی ہے اور ان کی درخواستوں کو کئی مقامات پر مسترد کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایک بنیادی وجہ 'ویکینسی‘ نہیں ہے، کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر فرانس میں نسل پرستی اور نسلی تعصب کے خلاف ہزاروں افراد ایک بڑے مظاہرے میں شریک تھے اور ان میں فرانسیسی لاء گریجوایٹ ایٹام ایسکوٹ بھی شامل تھے، ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں بھی اس حوالے سے منافقت پائی جاتی ہے بظاہر یہ حالات امریکا اور جارج فلوئڈ جیسے نہیں ہیں جہاں نسل پرستانہ متشدد رجحان واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ایسکوٹ کے نزدیک یورپ میں نسل پرستی پائی جاتی ہے لیکن یہ ڈھکی چھپی ہے۔

Published: undefined

فرانس میں نسلی تعصب

Published: undefined

بعض سماجی ماہرین کے مطابق فرانس میں نسلی تعصب کی شدت کو کسی حد تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں یورپی کونسل کا وہ سروے بہت اہم خیال کیا گیا ہے، جس میں پانچ ہزار نوجوانوں نے شرکت کر کے سوالات کے جواب دیے تھے۔ ان کا سروے کے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ افریقی نژاد یا عرب پس منظر کے افراد کو فرانسیسی پولیس دوسروں کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ روکتی ہے۔

Published: undefined

ہزاروں فرانسیسی افراد کے مظاہرے میں یہ تبدیلی ضرور دیکھی گئی کہ ملکی وزیر داخلہ کرسٹوف کاسٹنر نے پولیس کو کسی بھی قسم کی مداخلت سے روک دیا تھا۔ کاسٹنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ بعض پولیس اہلکار نسلی تعصب کے حامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد ایسی سوچ نہیں رکھتی۔

Published: undefined

بیلجیئم اور برطانیہ کا نوآبادیاتی ماضی

Published: undefined

ایسے مظاہرے بیلجیئم اور برطانیہ میں بھی دیکھے گیے۔ بیلجیئم بھی نوآبادیاتی ماضی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں بیلجیئم میں آباد ہونے والے افریقی نسل کے لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بادشاہ لیوپولڈ دوم کے مجسمے کو ہٹایا جائے کیونکہ ان کے دور میں خاص طور پر کانگو میں پندرہ ملین افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اسی طرح کا مطالبہ برطانیہ میں بھی سامنے آیا ہے۔

Published: undefined

لندن شہر کے میئر صادق خان بھی اس کے حق میں ہیں کہ نوآبادیاتی دور کے ایسے متنازعہ تاریخی کرداروں کے مجسموں کو اتار دیا جائے جو نسلی تعصب اور سامراجیت کی علامت تھے۔ مشرقی لندن میں سے غلاموں کی تجارت کرنے والے انگریز سوداگر رابرٹ ملیگین کے مجسمے کو مظاہرین کے مطالبے پر ہٹا دیا گیا ہے۔ برطانوی خاتون وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے متنازعہ تاریخی شخصیات کے مجسموں کو ہٹانے کو ناپسند کرتے ہوئے ایسے مظاہرین کے خلاف مقدمہ چلانے کی خواہش کا اظہار کیا، جنہوں نے مختلف شہروں میں مجسموں پر پتھراؤ کی کوشش کی تھی۔

Published: undefined

ایسی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کہ یورپی یونین میں نسل پرستی کے خاتمہ کے لیے اداروں کو بااختیار بنانا ضروری ہے اور یورپی پارلیمنٹ میں ایشیائی یا افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں ایشیائی یا افریقی یا دوسری نسلوں کے افراد مجموعی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں اس آبادی سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد چوبیس ہے۔ ان میں سویڈش گرینز سے تعلق رکھنے والی ایلس کئوہنکی بھی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اراکین کی تعداد آباد ہونے والے ایشیائی یا افریقی لوگوں کی آبادی کے مطابق نہیں ہے اور مستقبل میں مختلف پس منظر کے افراد کو پارلیمنٹ میں لانا از حد ضروری ہو گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined