سماج

عروج و زوال اور پروگریس

تاریخ میں قومیں اور تہذیبیں عروج و زوال اور پروگریس کے ذریعے تبدیلیوں سے گزرتی ہیں۔ عروج و زوال کا تعلق کسی ایک قوم یا تہذیب سے ہوتا ہے۔

عروج و زوال اور پروگریس
عروج و زوال اور پروگریس 

مورخ ان وجوہات کو تلاش کرتے ہیں کہ جو قوموں اور تہذیبوں میں توانائی کا جذبہ پیدا کرتی ہیں جو مرحلہ وار سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ان میں اتحاد پیدا کر کے علم و ادب، آرٹ، موسیقی اور تعمیرات سے ان کی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک مرحلے پر پہنچ کر جب قومیں عروج حاصل کر لیتی ہیں تو ان میں زوال کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تاریخ میں گمنام ہو جاتی ہیں۔ عروج و زوال کا یہ ڈرامہ رومی سلطنت، ایرانی و عرب طاقتوں کے ساتھ بھی ہوا۔ ہندوستان میں موریا، گپتا اور مغل سلطنتوں کا بھی زوال ہوا۔ موجودہ دور میں مورخ اور فلسفی یورپ اور امریکہ کو بھی زوال پذیر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

Published: undefined

پروگریس کا نظریہ اٹھارویں صدی میں یورپ کے مفکرین نے پیش کیا تھا۔ اس نظریے کی مدد سے مورخین نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے تین ادوار میں تقسیم کر دیا۔ قدیم عہد، عہد وسطیٰ اور دور جدید ان تینوں ادوار میں مرحلہ وار جو تبدیلیاں آئی تھیں ان کی مدد سے پروگریس کو دیکھا گیا۔ عروج و زوال کے مقابلے میں پروگریس کی تاریخ کو انسانی تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا کہ انسان نے کس طرح مرحلے وار ترقی کی اور جدید دور تک پہنچا۔ انسان کی تاریخ کو دو مختلف نظریات کی روشنی میں دیکھا گیا۔ ایک یہ تھا کہ قدیم ماضی میں انسان سنہری دور میں رہ رہا تھا، جس میں امن و امان تھا، خوشحالی تھی، مساوات تھی، سکون اور اطمینان تھا۔ لیکن انسان اس سے دور ہوتا چلا گیا اور جتنا دور ہوتا گیا اسی قدر سنہری دور کو واپس لانے کی خواہش کرتا رہا۔ یہ جنت گم گشتہ کی تلاش تھی، تاکہ سنہری دور کو دریافت کیا جا سکے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قدیم ماضی کا انسان وحشی اور جاہل تھا۔ لیکن اس نے پروگریس کے مختلف مراحل طے کئے اور پتھر کے زمانے سے زراعتی اور شہری زندگی میں داخل ہوکر قدم بہ قدم تبدیلیوں سے گزرتا ہوا دور جدید تک آیا۔ اس کی اس مرحلے وار ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نے تخلیقی صلاحیتیں اور ان کے ذریعے تبدیلی کی خواہش اسے آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

Published: undefined

پروگریس کا یہ نظریہ یورپ کے تناظر میں پیدا ہوا اور اس کی مدد سے مورخین نے یورپ کی تاریخ کا ارتقائی طور پر جائزہ لیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یورپ کی تہذیب میں پروگریس ہوئی اور غیر یورپی ممالک اس سے محروم رہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یورپی تہذیب متحرک وتوانا ہے اور اس میں مرحلے وار ترقی ہو رہی ہے، جبکہ ایشیا اور افریقہ کی عوام ایک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان میں ترقی کے جذبات موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا تھا اور اب بھی وہ ان ملکوں پر سیاسی تسلط کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

یورپ اور امریکہ کے بہت سے مفکرین اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگرچہ یورپی تہذیب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر لی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ادب، فلسفہ، آرٹ اور دوسرے سماجی علوم میں ترقی نہ ہونے کے باعث یورپی معاشرے بنجر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں یورپ کی سوسائٹی میں کسی فلسفی، مفکر، ناول نگار، شاعر اور آرٹ کے ماہرین نظر نہیں آتے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا یہ پروگریس عروج کی علامت ہے یا زوال کی۔ ان حالات میں اگر مغربی تہذیب کو اختیار کیا جائے تو اس کے لیے غیر یورپی ممالک کو ٹیکنالوجی نظر آتی ہے۔ جسے وہ ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ٹیکنالوجی جس کا تعلق کلچر سے نہیں ہوتا ہے، اس کا استعمال ذہنی پسماندگی کا باعث بن جاتا ہے۔ کیونکہ جب تک سماجی علوم اس کے ساتھ نہ ہوں تو سوسائٹی مادی اور معاشی طور پر تو ترقی کر سکتی ہے مگر اس میں اخلاقی قدریں اور انسانیت کا جذبہ موجود نہیں ہوتا۔

Published: undefined

اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پروگریس کے نظریے نے جنت گم گشتہ کو تلاش کر لیا ہے اور سنہری دور کو واپس لے آیا ہے یا اس نظریے نے یورپ کو ٹیکنالوجی کی طاقت دے کر غیر یورپی ملکوں پر ان کے تسلط کو قائم کر دیا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined