پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک مقامی کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر علی شیر کی حلفیہ معافی پر کئی حلقوں کی طرف سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ بنوں کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے زولوجی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ علی شیر اسٹوڈنٹس کو چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی پڑھاتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں شیر علی کو حلفیہ طور پر کہنا پڑا کہ ڈارون کا یہ نظریہ اسلام سے متصادم ہے، اس لیے وہ اس سے متفق نہیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ تمام تر ایسے نظریات باطل ہیں، جو اسلام سے میل نہیں کھاتے۔
Published: undefined
قبل ازیں علی شیر نے اسلام اور پاکستانی آئین میں خواتین کے حقوق پر منعقدہ ایک سیمنار میں بطور اسپیکر شرکت کی تھی، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے لبرل خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے پر اصرار کیا تھا۔ بنوں میں ہوئے اس سیمنار کے بعد مقامی مذہبی رہنماؤں نے علی شیر کے نظریات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ اس طرح کی باتوں سے بالخصوص مردوں کے خیالات خراب ہوتے ہیں۔
Published: undefined
مذہبی رہنماؤں کی ایک منظم مہم کے تحت بنوں میں ایک کشیدگی بھی دیکھی گئی اور پروفیسر شیر علی کو ہراساں بھی کیا گیا۔ اس دباؤ کے تحت آخر کار زولوجی کے استاد نے کہہ ہی دیا کہ وہ اس لیے پڑھاتے ہیں کیونکہ انہیں اس کی تنخواہ ملتی ہے۔
Published: undefined
شیر علی نے سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کی، جس میں انہوں نے حلفیہ معافی مانگتے ہوئے ڈراون کے نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دے دیا۔ انہوں نے خواتین کی نشست و برخاست کے حوالے سے بھی اسلامی شریعت پر عمل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ خواتین کو سر تا پیر پردہ کر کے گھر سے نکلنا چاہیے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات میں شامل ہے۔
Published: undefined
ممتاز پشتون دانشور اور پروفیسر فرحت تاج کے مطابق پاکستان کے مذہبی حلقوں میں ماضی میں ڈارون کی تھیوری کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ نصاب کا حصہ ہونے کے باوجود ایک متنازعہ معاملہ ہے۔
Published: undefined
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر فیض اللہ جان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں متعدد سائنسی نظریات کے ساتھ ساتھ ڈارون کی تھیوری کو بھی معروضی طریقے سے نہیں پڑھایا جا سکتا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہا پسندی پاکستان کو سائنسی ترقی سے دور کرتے ہوئے تنزلی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
Published: undefined
پاکستان کے ممتاز دانشور اور اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر عبدالحمید نیئر کے بقول اس تعلیمی نظام میں اس طرح کی رکاوٹوں سے پاکستان ترقی کی راہ سے اتر سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں پروفیسر عبدالحمید نیئر نے مزید کہا کہ پاکستان میں یہ سلسلہ اسّی کی دہائی میں شروع ہوا تھا، جب سائنسی مضامین پڑھاتے ہوئے بچوں کو یہ درس دینا شروع کیا گیا تھا کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملانے سے خود کار طریقے سے پانی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ سب کچھ دراصل اللہ کی رضا مندی سے ہی ہوتا ہے۔
Published: undefined
پروفیسر عبدالحمید نیر کا مزید کہنا ہے کہ نصاب کا سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے سے ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ موجودہ صورتحال میں تبدیلی کی خاطر حکومت کو ہنگامی کوششیں کرنا ہو گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined