سماج

بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟

ذات پات کے سماجی نظام میں انتہائی کم حیثیت سمجھے جانے والی دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹھوس قانونی کارروائی نہیں ہونے کے سبب صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟
بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟ 

اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں گزشتہ ہفتے پندرہ اور سترہ برس کی دو بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس کے مطابق ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ پولیس نے گینگ ریپ اور قتل کے الزام میں چھ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔

Published: undefined

یہ واقعہ بھارت میں تقریباً آٹھ کروڑ دلت خواتین کو درپیش جنسی تشدد کے مسئلے کی تازہ کڑی ہے۔ دلت خواتین بھارت کے صدیوں پرانے ذات پات کے سماجی نظام میں روایتی طور پر سب سے کم سطح پر سمجھی جاتی ہیں۔

Published: undefined

جنسی تشدد معمول کی بات

لکھیم پورکھیری کے واقعے نے سن 2014 میں ہونے والے اسی طرح کے واقعے کی خوفناک یادیں تازہ کر دیں جب اترپردیش کے ہی بدایوں ضلعے میں دو کمسن بہنوں کا اغوا اور ان کا گینگ ریپ کے بعد قتل کرکے لاشوں کو ایک درخت سے لٹکا دیا گیا تھا۔

Published: undefined

اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور اقوام متحدہ کو قصورواروں کے خلاف فوراً کارروائی کرنے کی اپیل کرنی پڑی تھی۔ سن 2020 میں بھی اترپردیش کے ہی ہاتھرس ضلع میں اعلیٰ ذات کے ہندؤوں نے ایک 19سالہ دلت لڑکی کو گینگ ریپ کے بعد قتل کردیا تھا۔ اس واقعے نے بھی دلتوں کے مسلسل استحصال کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

Published: undefined

متبادل نوبل انعام کے نام سے مشہور رائٹ لائیولی ہڈ ایوارڈ یافتہ سماجی کارکن رتھ منورما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "دلت خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ریپ دراصل ان کے وجود اور وقار کو کچل دینے کی کوشش ہے۔سماجی نظام کے حساب سے اعلیٰ ذات کے سمجھے جانے والے مرد اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے، دلت خواتین کی توہین کرنے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے کے لیے جنسی تشدد کا استعمال کرتے ہیں۔"

Published: undefined

بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق دلت ذات کے افراد کے ساتھ ہونے والے جرائم کے تقریباً 71000 کیسز سن 2021 کے اواخر تک زیر التوا تھے۔

Published: undefined

بڑے پیمانے پر تفریق

اعدادو شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سن 2015 سے 2020 کے درمیان دلت خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات میں 45 فیصد کا اضافہ ہوا۔ تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بیشتر کیسز پولیس میں درج ہی نہیں ہوپاتے ہیں۔ بھارت میں دلت خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات اترپردیش، بہار اور راجستھان میں پیش آتے ہیں۔ پورے ملک میں دلت خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کا نصف سے بھی زائد ان تین ریاستوں میں درج کیے گئے۔

Published: undefined

دلتوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم دلت ہیومن رائٹس کی جنرل سکریٹری بینا پالیکل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اتر پردیش میں بھارتی دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔" انہوں نے مزید کہا ''خواتین کمیشن ایسے واقعات کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا ہے۔ ملک کے پورے عدالتی نظام پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دلت خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔"

Published: undefined

دلت خواتین کو ایک ساتھ تین تین طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عورت ہونے کی وجہ سے، دوسرا ذات کی بنیاد پر اور تیسرے نمبر پر اقتصادی طور پر پسماندہ ہونے کی وجہ سے۔

Published: undefined

منہ بند رکھنے کا کلچر

سن 1990کی دہائی کے اوائل سے دلتوں کے حقوق کی تحریک میں تیزی آنے کے ساتھ ہی ان کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سخت قوانین اور حکومت کے وعدوں کے باوجود ذات پات پر مبنی قتل، سماجی تفریق اور دیگر خلاف ورزیاں روز کا معمول بن گئی ہیں۔

Published: undefined

خواتین کے حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم 'ایکوالٹی ناؤ' کی سن 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ''دلت خواتین اور لڑکیاں بالعموم انصاف سے محروم رہ جاتی ہیں بالخصوص اگر جرم کرنے والے شخص کا تعلق بھارتی سماجی نظام میں اعلیٰ درجے سے ہو۔''

Published: undefined

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں یوں تو دلتوں کے خلاف جرائم کے لیے سخت قوانین موجود ہیں لیکن ان پر شاذ و نادر ہی عمل ہوپاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined