سماج

امریکی مسلح افواج میں جنسی حملے

امریکی وزیر دفاع افواج میں جنسی جرائم کے مقدمات کی سماعت اور سزائیں سنانے کا پینٹاگون کا نظام انصاف تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فوجی کمان سے جرائم سے متعلق استغاثہ کے اختیارات واپس لیے جانے کے حامی ہیں۔

امریکی مسلح افواج میں جنسی حملے، فوجی نظام انصاف بدلنے کی سفارش
امریکی مسلح افواج میں جنسی حملے، فوجی نظام انصاف بدلنے کی سفارش 

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے اس بارے میں سفارشات کے لیے ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کیمشن کو اس حوالے سے اپنی سفارشات تیار کرنا تھیں کہ امریکی مسلح افواج میں جنسی جرائم اور جنسی حملوں کے مرتکب فوجیوں اور افسران کے خلاف کارروائی کا بہترین طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اور انہیں سزائیں سنانے کے عمل کو زیادہ مؤثر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

کمیشن کی سفارشات تیار

وزیر دفاع نے کہا کہ انہیں اس غیر جانب دار کمیشن کی تیار کردہ سفارشات موصول ہو گئی ہیں اور اب وہ ملکی ''کانگریس کے ساتھ مل کر یونیفارم کوڈ آف ملٹری جسٹس میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ جنسی حملوں اور ایسے دیگر جرائم کے مرتکب اہلکاروں کو سزائیں سنانے کا اختیار ملٹری چین آف کمانڈ سے واپس لے لیا جائے۔‘‘

Published: undefined

لائڈ آسٹن نے کہا کہ کمیشن نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ فوجی کمانڈ کو حاصل پراسیکیوشن کے جو اختیارات واپس لے لیے جانا چاہییں، ان میں فوجی اہلکاروں کی طرف سے گھریلو تشدد کے ارتکاب کو بھی شامل کیا جائے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا، ''میں گھریلو تشدد کو بھی ایسے جرائم کی فہرست میں اس لیے شامل کرنا چاہوں گا کیونکہ اس طرح کا تشدد بھی جنسی نوعیت کے حملوں سے جڑا ہوتا ہے۔‘‘

Published: undefined

بارہ کمانڈروں اور یونٹ سربراہان کی برطرفی

پینٹاگون کے سربراہ امریکی مسلح افواج میں جنسی حملوں سے متعلق مروجہ نظام انصاف کو اس لیے بھی بدلنا چاہتے ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملکی افواج میں ایسے جرائم کے ارتکاب کو ابھی تک روکا نہیں جا سکا۔

Published: undefined

اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈوں میں شمار ہونی والی ایک ملٹری بیس کے ایک درجن سے زائد کمانڈروں اور یونٹ سربراہان کو گزشتہ برس دسمبر میں برطرف کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

بیس سالہ خاتون فوجی کا قتل

ان بارہ سے زیادہ فوجی اہلکاروں کی برطرفی کی وجوہات میں ایک بیس سالہ خاتون فوجی وینیسا گیلن کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ بھی شامل تھا۔ اس واقعے کے بعد وینیسا گیلن گزشتہ برس 22 اپریل کو اچانک لاپتہ ہو گئی تھیں۔

Published: undefined

گیلن نے اپنے اہل خانہ کو بتایا تھا کہ انہیں اپنے اعلیٰ فوجی افسران پر یہ اعتماد نہیں تھا کہ وہ ان کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت پر کوئی کارروائی کریں گے۔

Published: undefined

لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے

وینیسا گیلن کے لاپتہ ہو جانے کے بعد ان کے اہل خانہ نے بھی اس بارے میں عوامی سطح پر کھل کر شکوک کا اظہار کیا تھا کہ آیا امریکی فوج وینیسا گیلن کی گمشدگی کی تسلی بخش چھان بین کرنا چاہتی تھی۔

Published: undefined

ان شبہات کے اظہار کے بعد ہی گزشتہ برس 30 جون کو وینیسا گیلن کے لاش ملی تھی، جس کے ٹکڑے کر کے مختلف جگہوں پر زیر زمین چھپا دیے گئے تھے۔ گیلن کی گمشدگی اور قتل کا یہ واقعہ امریکی فوج پر اس کی صفوں میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی وجہ سے شدید تنقید کا باعث بنا تھا۔

Published: undefined

فوج ملٹری جسٹس سسٹم میں تبدیلی کی مخالف

وینیسا گیلن کا قتل ان بڑے فوجی جرائم میں سے ایک تھا، جن کے بعد امریکی محکمہ دفاع سے یہ مطالبات کیے جانے لگے تھے کہ ملٹری کمانڈ سے ایسے جرائم کے مرتکب فوجیوں کو سزائیں سنانے کا اختیار واپس لے لیا جائے۔

Published: undefined

ان مطالبات کے برعکس امریکی فوج کی طرف سے موجودہ ملٹری جسٹس سسٹم میں کسی بھی تبدیلی کی آج تک مخالفت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مسلح افواج میں نظم و ضبط کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مجرمانہ واقعات میں سزائیں سنانے کا اختیار ملزمان کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں ہی کے پاس رہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined