سماج

دنیا بھر میں چودہ سو سے زائد صحافی قتل: پیپلز ٹریبیونل میں سماعت شروع

انیس سو بانوے سے لے کر اب تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر چودہ سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ نیدرلینڈز میں قائم ایک پیپلز ٹریبیونل اب ان میں سے قتل کے کئی چیدہ چیدہ واقعات کی چھان بین کرے گا۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس  

بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے قتل کے ان واقعات میں سے بہت زیادہ شہرت حاصل کرنے والا ایک واقعہ میکسیکو میں 2011ء میں ایک رپورٹر کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی تھا۔ میکسیکو کے ایک علاقائی اخبار 'نوٹیور‘ کے لیے اپنے آخری کالم میں میگوئل اینجل لوپیز ویلاسکو نامی اس رپورٹر نے عورتوں اور بچیوں کے قتل، اقربا پروری اور پینے کے آلودہ پانی کو موضوع بنایا تھا۔

Published: undefined

آخری کالم کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد قتل

لوپیز ویلاسکو کا قلمی نام 'میلو ویرا‘ تھا اور وہ ویرا کروز نامی شہر میں قائم ایک میڈیا کمپنی کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا تھا کہ جن مسائل کو انہوں نے اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے، حکام نے انہیں حل کرنے کے وعدے کیے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر حکام نے وہ مسائل حل نہ کیے، تو وہ انہیں یاد دہانی بھی کرائیں گے۔

Published: undefined

لیکن پھر چند ہی گھنٹے بعد 55 سالہ لوپیز ویلاسکو مردہ پائے گئے۔ بیس جون 2011ء کو علی الصبح، جب وہ ابھی سو رہے تھے، قاتلوں نے ان کے گھر میں گھس کر لوپیز ویلاسکو، ان کی اہلیہ آگسٹینا اور سب سے چھوٹے بیٹے میسیال کو قتل کر دیا تھا۔ اس تہرے قتل کے دوران قاتلوں نے اپنے آتشیں ہتھیاروں سے 400 سے زائد گولیاں فائر کی تھیں۔

Published: undefined

اس خونریز حملے کے بعد لوپیز ویلاسکو کے گھر کے پاس ہی واقع پولیس اسٹیشن سے کوئی ایک بھی پٹرولنگ کار جائے وقوعہ پر نہیں بھیجی گئی تھی۔

Published: undefined

نوے فیصد سے زائد قاتل سزاؤں سے بچ جاتے ہیں

آج ایک عشرے سے بھی زائد عرصے بعد میکسیکو میں ریاستی دفتر استغاثہ اس تہرے قتل کے مرتکب افراد کو بس تلاش ہی کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس جرم کے ارتکاب کے محرکات بھی۔ اسی دوران لوپیز ویلاسکو کے دونوں زندہ بچے جان کے خطرات کے باعث ملک چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی اختیار کر چکے ہیں۔

Published: undefined

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی میکسیکو میں ملکی نمائندہ بالبینا فلوریس کہتی ہیں کہ لوپیز ویلاسکو کے قاتلوں نے ایک پورا گھر بھی تباہ کر دیا اور ساتھ ہی ایک بڑی تنقیدی آواز کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ''صحافیوں کے قتل کے 90 فیصد سے زائد واقعات میں مجرم سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

دی ہیگ کا پیپلز ٹریبیونل

میکسیکو میں لوپیز ویلاسکو کے قتل کا واقعہ اب علامتی سطح پر ہی سہی مگر نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ایک عدالت کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ یہ مستقل عوامی عدالت (Permanent People's Tribunal) آج دو نومبر سے دنیا بھر میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں کی کھلی سماعت شروع کر رہا ہے۔

Published: undefined

اس عدالت کے ایجنڈے میں تین سرکردہ صحافیوں کے قتل کے واقعات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ تین مقتول صحافی میکسیکو کے لوپیز ویلاسکو، سری لنکا کے لسانتھا وکرماٹنگے اور شام کے نبیل الشارباجی تھے۔

Published: undefined

اس عدالت کو کسی کو سزا سنانے کا اختیار نہیں مگر اس ٹریبیونل میں سماعت کے نتیجے میں نہ صرف عوامی شعور بیدار کیا جا سکتا ہے بلکہ ساتھ ہی مختلف ممالک کی حکومتوں پر دباؤ بھی ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں صحافیوں کی حفاظت کے انتظامات کو بہتر بنائیں۔

Published: undefined

عوامی عدالت کا آغاز کس نے کیا؟

دی ہیگ میں اس مستقل عوامی عدالت کا قیام صحافیوں کی تین بڑی بین الاقوامی تنظیموں کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہو سکا۔ یہ تنظیمیں رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، فری پریس اَن لمیٹڈ (ایف پی یو) اور صحافیون کے تحفظ کی کمیٹی سی پی جے ہیں۔

Published: undefined

سی پی جے کی لاطینی امریکا اور بحیرہ کیریبیین کے خطے کے لیے پروگرام ڈائریکٹر نیٹالی ساؤتھ وِک کے مطابق، ''یہ پبلک فورم مختلف ریاستوں کو اپنے ہاں صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں سنانے میں ناکامی کے لیے جواب دہ بنانے کا موقع ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined