وفاقی جرمن ریاست برانڈنبرگ کی پولیس کے مطابق یہ واقعہ جرمنی کے مشرقی شہر کوٹبُس میں جمعرات کے روز پیش آیا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
Published: undefined
انیس سالہ نوجوان طالب علم رالف پی جمعرات کی صبح پونے چھ بجے کے قریب معمول کے مطابق ٹرام میں بیٹھ کر سکول جا رہا تھا۔ اچانک پیچھے سے ایک شخص نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اس وقت ٹرام ایک اسٹیشن کے قریب تھی اور اس کے رکتے ہی حملہ آور بھاگ کر ٹرام سے اتر گیا۔
Published: undefined
ٹرام کے ڈرائیور اور عینی شاہدین کے مطابق حملہ کرنے والے شخص نے ٹرام سے اترنے کے بعد زوردار قہقہہ بھی لگایا۔
Published: undefined
جرمن اخبار 'ویلٹ‘ کے مطابق حملہ آور اور زخمی نوجوان ممکنہ طور پر پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ رالف کے مطابق حملہ آور کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس لیے وہ صرف اس کی آنکھیں ہی دیکھ پایا۔
Published: undefined
ٹرام ڈرائیور نے فوری طور پر پولیس کو واقعے کی اطلاع دی۔ رالف پی کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
Published: undefined
اس کے بعد پولیس نے حملہ آور کی تلاش شروع کر دی۔ ٹرام میں نصب کیمرے کی فوٹیج دیکھ کر حملہ آور کی شناخت کر لی گئی۔
Published: undefined
جرمن دارالحکومت برلن سے شائع ہونے والے ایک مقامی اخبار بی زیڈ کے مطابق 28 سالہ پاکستانی حملہ آور کی شناخت عبدالسلام آر ظاہر کی گئی ہے۔
Published: undefined
برانڈنبرگ پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالسلام آر کو حملے کے نو گھنٹے بعد ہی اس کی رہائش گاہ سے حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے کمرے سے دیگر اشیا بھی تحویل میں لے گئیں۔
Published: undefined
ابتدائی تفتیش کے بعد ہی اس واقعے کے بارے واضح کر دیا گیا کہ یہ کوئی منظم دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا۔ پولیس کے مطابق پاکستانی پناہ گزین اس واردات سے قبل بھی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا تھا اس لیے پولیس اس سے پہلے ہی سے واقف تھی۔
Published: undefined
مقامی میڈیا کے مطابق عبدالسلام نے پولیس کو حملے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جرمنی میں کسی شخص کو زخمی یا قتل اس لیے کرنا چاہتا تھا تا کہ اسے ملک بدر کر کے پاکستان نہ بھیجا جا سکے۔ عبدالسلام کا جرمنی میں عارضی رہائشی اجازت نامہ حال ہی میں ختم ہو گیا تھا۔
Published: undefined
کوٹبُس کے دفتر استغاثہ کے مطابق اب اس پاکستانی شہری کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے اور اگر یہ مقدمہ کسی جرمن عدالت ہی میں چلایا گیا تو اسے پندرہ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined