سماج

’چوری کرنے والے ہی بھلا مجھے انصاف کب دیں گے؟‘

پاکستان کے ایک نامور فوٹوگرافر سید مہدی بخاری کا کہنا ہے کہ ایک خاتون سفارت کار نے ان کی تصاویر غیر قانونی طور پر اور ان کی اجازت کے بغیر اپنی کتاب میں شائع کی ہیں۔

’چوری کرنے والے ہی بھلا مجھے انصاف کب دیں گے؟‘
’چوری کرنے والے ہی بھلا مجھے انصاف کب دیں گے؟‘ 

پاکستان کے ایک معروف فوٹوگرافر اور ٹریول بلاگر سید مہدی بخاری اس صورتحال سے سخت نالاں ہیں کہ ان کا کام بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ان کی اجازت کے بغیر تجارتی یا پروموشن مقاصد کے لیے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اسی سبب اب تک مالی نقصانات بھی اٹھا چکے ہیں کیونکہ پاکستان کے کئی نامی گرامی پرائیویٹ ادارے ان کی تصاویر اور کانٹیٹ کو ان کی اجازت یا خریدے بغیر ہی چھاپ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں اور انہوں نے کبھی مالی فائدے یا ریوارڈ کا نہیں سوچا تھا لیکن جب ان کے کام کو مالی یا ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر انہیں لازمی افسوس ہوتا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مہدی بخاری کا کہنا تھا کہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ صرف پرائیویٹ ادارے ہی حقوق دانش کی چوری کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ ان کا تخلیقی مواد اور تصاویر تو کئی حکومتی ادارے بھی انہیں ادائیگی کیے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر ہی متعدد مرتبہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کر چکے ہیں۔

Published: undefined

پاکستانی دفتر خارجہ کی ایک خاتون سفارت نے مبینہ طور پر سید مہدی بخاری کے ٹریول بلاگز اور سوشل میڈیا پر پہلے سے شائع شدہ تصاویر اور تحریری کام پر مبنی ایک کتاب بھی شائع کر دی۔ سید مہدی بخاری کے مطابق، ''جارڈن-پاکستان ریلشنز‘ کے نام سے کتاب 2018ء میں شائع کی گئی تھی جس کے مصنفین میں اس وقت اردن کے لیے پاکستانی سفارت کار محترمہ سعدیہ وقار النساء اور اردن کے سفارت کار جناب عمر محمد نزال العرموتی شامل تھے۔ اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ تمام کی تمام تصاویر میری ہیں بلکہ اس میں دی گئی زیادہ تر معلومات بھی میری ہی تحریروں سے لی گئی ہے۔‘‘

Published: undefined

’انصاف دینے والے اپنی ہی ایک افسر کو بچانے کی‘

Published: undefined

مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف محترمہ سعدیہ وقار النساء سے رابطہ کیا بلکہ اردن کے سابق سفارت کار عمر محمد نزال العرموتی سے بھی رابطہ کیا جو اس کے علاوہ بھی چار کتابوں کے مصنف ہیں: ''جناب عمر محمد نزال تو اس پر شدید شرمندہ تھے کہ اس کتاب میں چوری شدہ مواد چھپا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تمام مواد محترمہ سعدیہ وقار النساء نے فراہم کیا تھا اور ان کے علم میں کبھی نہیں لایا گیا کہ وہ مواد چوری شدہ تھا۔‘‘

Published: undefined

مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے محترمہ سعدیہ وقار النساء سے بھی رابطہ کیا مگر پاکستانی بیوروکریسی کے عمومی رویے کے مطابق انہوں نے ان کی بات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا: ''بلکہ میری طرف سے اس معاملے پر اسٹینڈ لینے کے بعد انہوں نے اپنے مختلف کولیگز اور دیگر افراد کی طرف سے مجھ پر اس معاملے پر خاموش ہو جانے کے لیے زور ڈالا گیا۔‘‘

Published: undefined

اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے مہدی بخاری کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم کے خصوصی اسٹیزن پورٹل پر بھی شکایت کی: ''چار ہفتوں بعد میری شکایت یہ کہہ کر نمٹا دی گئی کہ مذکورہ خاتون افسر نے اس کتاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ان کا نام ان کے علم میں لائے بغیر کتاب کے مصنف کے طور پر چھاپ دیا گیا ہے جس کے لیے انہوں نے اردنی سفارت کار کو خط بھی لکھا ہے۔ جس کی مجھے کاپی بھی فارورڈ کی جا رہی ہے۔ تاہم مجھے کوئی کاپی بھی نہیں ملی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہی لگتا ہے کہ متعلقہ اتھارٹی نے اپنی افسر کو بچانے کے لیے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔

Published: undefined

پاکستان میں کاپی رائٹس قوانین تو موجود مگر عمل...

Published: undefined

گلوبل پبلشنگ انڈکس کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی صنعت کا سب سے بڑا المیہ کاپی رائٹس کی چوری یا پائریسی ہے اور پاکستانی بک انڈسٹری کا 50 سے 60 فیصد تک حصہ ہر سال کاپی رائٹس کی چوری کی نذر ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کتابوں کی اشاعت سے متعلق ایک بڑے آن لائن ادارے 'پبلشنگ پرسپیکٹیوز‘ کا بھی یہی کہنا ہے کہ کتابوں کی اشاعت کی پاکستانی صنعت کے لیے سب سے بڑے مسائل میں سے اہم ترین کاپی رائٹس کا سرقہ ہے۔

Published: undefined

یہ سرقہ یا چوری تو کتابوں یا شائع شدہ مواد کی ہے اور جس کے کاپی رائٹس باقاعدہ سے محفوظ کرائے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد کی جو صورت حال ہے اس کا اندازہ لگانا ہی محال ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے کانٹینٹ جنریٹ کرنے والے افراد اکثر یہ شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ لوگ ان کی اجازت کے بغیر اور منصوب کیے بغیر وہ کانٹنٹ اپنے نام سے آگے شائع کر دیتے ہیں۔

Published: undefined

پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل راشد محمود سندھو کے مطابق پاکستان میں کاپی رائٹس کے تمام قوانین موجود ہیں اور کاپی رائٹس آرڈیننس 1962 میں ملکی اور بین الاقوامی حوالے سے تمام رولز بنے ہوئے ہیں: ''آن لائن مواد کی چوری کے حوالے سے سائبر کرائم کے قوانین موجود ہیں اور اگر کوئی شخص ایف آئی اے میں اس حوالے شکایت درج کراتا ہے تو اس کی درخواست پر غور ہو گا اور اسے انصاف بھی ملے گا۔‘‘

Published: undefined

سید مہدی بخاری کے بقول اب ان کے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس حوالے سے عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے بھی رابطہ کیا تاکہ ایک سفارت کار کی طرف سے پاکستانی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی اور سرقہ کے معاملے پر ان کا نکتہ نظر جانا جا سکے مگر دفتر خارجہ کی ترجمان محترمہ عائشہ فاروقی کو ان کے سرکاری ای میل ایڈریس پر 29 جون کو لکھی گئی ای میل کا ابھی تک کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined