سماج

عمران خان نے مذہبی قدامت پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیکے!

پاکستان حکومت کی طرف سے خواتین پر تشدد کے خلاف بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا گیا ہے۔ حقوق نسواں کے کارکنان اور مذہبی قدامت پسند دونوں حلقے ہی اس بل کے حوالے سے ناراض ہیں, حکومت اس کا دفاع کررہی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی فائل تصویر آئی اے این ایس
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی فائل تصویر آئی اے این ایس 

گھریلو تشدد تدارک اور تحفظ بل قومی اسمبلی سے انیس اپریل کو اور سینیٹ سے جون میں منظور ہوا تھا۔ قدامت پرست مذہبی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بل انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا اور اس کی شقیں خاندانی نظام کو تہس نہس کر دیں گی جب کہ بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ترقی پسندانہ قانون ہے، جو خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

Published: undefined

عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما اور معروف حقوق نسواں کی کارکن شازیہ خان کا کہنا ہے کہ خواتین کارکنان کو اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے جانے پر شدید تشویش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا حق ہے اور پی ٹی آئی حکومت کو یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنا نہیں چاہیے تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ عمران خان ان مذہبی شخصیات کو خوش کرنا چاہتے ہیں، جو خواتین کے حقوق کی دشمن ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی مخالفت کی ہے۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کارکنان کو اس لیے بھی تشویش ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے کئی ارکان کا ماضی میں رویہ بہت ہی عورت مخالف رہا ہے، ''اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے ماضی میں کمسن لڑکیوں کی شادی کو جائز قرار دیا اور انہوں نے ہر اس قانون کی مخالفت کی، جو عورتوں کے حق میں تھا تو ایسے میں کس طرح یقین کر لیا جائے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کوئی مثبت فیصلہ دے گی؟‘‘

Published: undefined

عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں اسلامی نظریاتی کونسل بالکل غیر متعلقہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارلیمنٹ کی موجودگی میں اس کونسل کا کوئی جواز نہیں، اس کو ختم کرنا چاہیے اور اس میں خواتین کی نمائندگی بھی نہیں۔ اگر اس بل میں کچھ خامیاں تھیں تو اس کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کیا جانا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم کے حکم پر اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کے بھی ایسے ہی ایک بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا تھا اور اس میں قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے تھے۔‘‘

Published: undefined

فیصلے کا دفاع

پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اور اگر حکومت کو کسی معاملے پر شرعی نقطہ نظر سے مشورہ کرنا ہو تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو مسئلہ بھیج سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل کے حوالے سے علمائے اکرام کو کچھ تحفظات ہیں تو ان تحفظات کو دور کرنے کے لئے اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا گیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ لیا جائے۔ اس کا کام ہی ایسے امور میں مشورے دینا ہے تو حکومت یہ آئینی کام کیوں نہ کرے؟ حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی کہ جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ کوئی ایسا قانون بنانا چاہتی ہے، جو قرآن و سنت کے خلاف ہو یا شریعت کے احکامات کے خلاف ہو اور اسلامی نظریاتی کونسل ایسے قوانین کو پرکھنے کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے، اس لیے حکومت نے اس کو وہاں بھیجا ہے۔‘‘

Published: undefined

مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی بل کی مخالفت

ماضی میں لال مسجد سے وابستہ رہنے والی شہدا فاؤنڈیشن کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اگر بل اسی شکل میں قانون بن گیا تو وہ اس کے خلاف عدالت جائیں گے۔ فاونڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف ہم ہی اس پر اعتراض نہیں کر رہے بلکہ پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے بھی اس پر کئی اعتراضات کئے ہیں۔ یہ بل قران و سنت کے خلاف ہے، جو ایک برطانوی قانون کی ہو بہو نقل ہے۔ اس میں دوسری شادی کی بات کو حراسیت کے زمرے میں لایا گیا ہے۔ شوہر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیوی کے نجی معاملات یا خلوت میں دخل اندازی نہ کرے۔ ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined