سیاسی

امروہہ لوک سبھا سیٹ پر کم ووٹنگ سے سبھی پارٹیاں تذبذب میں مبتلا، کس کے سر سجے گا فتح کا تاج؟

امروہہ سے رکن پارلیمنٹ کون منتخب ہوگا، اس کا فیصلہ تو ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن بی جے پی خیمے کی مایوسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انڈیا اتحاد کے امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر، قومی آواز / وپن</p></div>

فائل تصویر، قومی آواز / وپن

 

امروہہ: لوک سبھا حلقہ امروہہ میں مجموعی طور پر 65 فیصد پولنگ ہونے اور خاص طور پر اسمبلی حلقہ امروہہ میں 68 فیصد پولنگ کو لے کر سیاسی پارٹیوں میں ایک عجیب قسم کی مایوسی ہے ۔ ایسا اس لیے کیوں کہ یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ووٹنگ کا یہ کم فیصد کس کے لیے نقصان ده ہوگا۔ خاص طور پر بی جے پی خیمہ بہت ہی مایوس نظر آ رہا ہے۔

Published: undefined

یاد رہے کہ 2019 لوک سبھا انتخاب کے دوران امروہہ لوک سبھا حلقہ میں 71 فیصد سے بھی زیادہ ووٹنگ ہوئی تھی اور اس معاملے میں یوپی کی کسی بھی لوک سبھا سیٹ میں نمبر ون تھا۔ اتر پردیش میں دو مراحل کی پولنگ کے دوران 16 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا چکے ہیں اور فی الحال امروہہ (65 فیصد) ووٹنگ کے معاملے میں نمبر 1 ہی ہے، لیکن آنے والے مراحل میں 70 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹ ڈالا جانا ابھی باقی ہے۔

Published: undefined

جہاں تک امروہہ لوک سبھا سیٹ پر ہونے والے مقابلہ کا سوال ہے، ’ہاتھی‘ کی چال طے کرے گی کہ جیت کس کی ہوگی۔ اس مرتبہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی نے بی ایس پی سے معطل شدہ موجودہ رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کو انڈیا اتحاد کی طرف سے مشترکہ امیدوار بنایا ہے، جبکہ بی جے پی نے سابق رکن پارلیمنٹ کنور سنگھ تنور کو ایک بار پھر ٹکٹ دیا۔ گزشتہ مرتبہ وہ کنور دانش علی سے 63 ہزارسے بھی زائد ووٹوں سے ہار گئےتھے۔ بی ایس پی نے ڈاسنہ (غازی آباد) کی چیئرپرسن کے شوہر ڈاکٹر مجاہد حسین عرف بابو بھائی کو یہاں سے امیدوار بنایا ہے۔ سبھی امیدوار نے اپنی اسطاعت کے مطابق خوب پسینہ بہایا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ کس کے حق میں جاتا ہے۔

Published: undefined

امروہہ لوک سبھا سیٹ کو حاصل کرنے کے لیے ایک بار وزیر اعظم نریندر مودی، چار مرتبہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ یوگی اور درجن بھر کیبنٹ وزیر و دیگر بی جے پی لیڈران یہاں کی گلیوں کی خاک چھانتے نظر آئے۔ اس سیٹ پر انڈیا اتحاد کے امیدوار کنور دانش علی کو کامیاب بنانے کے لیے راہل گاندھی، اکھلیش یادو، عمران پرتاپ گڑھی، سنجے سنگھ، صوبائی کانگریس صدر اجے رائے وغیرہ انتخابی تشہیر کرتے دکھائی دیے۔ اسی طرح بی ایس پی کے جعفر ملک، رنوجے سنگھ اور شمس الدین راعینی ’ہاتھی‘ کی چال مست کرنے میں مصروف رہے۔ حالانکہ 26 اپریل کو ہوئی پولنگ نے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا۔

Published: undefined

پولنگ کے دن امروہہ لوک سبھا سیٹ پر سیاسی پارٹیاں پوری طرح سے سرگرم دکھائی دیں۔ بی جے پی امیدوار کنور سنگھ تنور آخر آخر تک اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو مناتے دکھائی دیے۔ یہاں بی جے پی میں تین گروپ بن گئے تھے۔ ایک گروپ کھل کر کنور سنگھ کی حمایت کر رہا تھا جبکہ دوسرا گروپ تنور کو فتح دلانے کی جگہ ہرانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ تیسرا گروپ متوازی تھا جو دونوں میں سے کسی بھی گروپ کی مخالفت نہیں کر رہا تھا۔ ایک بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ جب کنور سنگھ تنور ایک بار رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں تو پھر انہیں 2019 میں ٹکٹ دیا گیا اور اب 2024 میں بھی انہیں امیدوار بنا کر بی جے پی نے وفادار پارٹی ورکرس کی توہین کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا بیٹا للت تنور ضلع پنچایت کا صدر ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پھر سے کنور سنگھ کو امیدوار بنایا جانا کہاں تک مناسب ہے۔ بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ اس بار امروہہ لوک سبھا حلقے میں گزشتہ لوک سبھا پولنگ کے مقابلے تقریباً 7 فیصد ووٹنگ کم ہوئی ہے۔ یہ بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی تذکرہ کیا کہ اس بار ہندو اکثریتی بوتھوں پر ہندو خواتین نے برائے نام پولنگ کیا ہے جبکہ اس سے قبل ان کا پولنگ تناسب بہت زیادہ رہتا تھا۔

Published: undefined

اس ضمن میں پولنگ کے روز کی ایک فیس بک پوسٹ بھی بہت گشت کرتی رہی جس میں مبینہ طور پر آئی جی مراد آباد منی راج کی طرف یہ پوسٹ کی گئی کہ ’ابھی تین بجے ہیں اور مسلم بوتھوں پر 40 فیصد سے زیادہ پولنگ ہو چکی ہے۔ نماز کے بعد بہت سارے مسلمان آئیں گے، اس لیے بھاری فورس لگا دی جائے تاکہ ان کا پولنگ کم ہو۔‘ اس پوسٹ سے یکبارگی مسلمانوں میں خوف و ہراس تھا، لیکن دیر رات آئی جی منی راج نے وضاحت کرتے ہوئے اسے فرضی پوسٹ قرار دیا اور جانچ کے لیے سائبر کرائم کو متحرک کر دیا۔ اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

نوگاواں سادات حلقے کے کچھ چوہان ووٹرس نے کہا کہ انہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جہاں صد فیصد پولنگ ہوئی تھی، وہاں بہت کم دلچسپی دکھائی دی۔ یہ بھی بی جے پی کے لیے خطرہ پیدا کرنے والی بات ہے۔ ادھر بچھرایوں دھنورا حلقے کے کچھ ووٹرس سے اس نمائندے نے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ وہ درج فہرست ذات سے ہیں اور انہوں نے راہل گاندھی و اکھلیش یادو کی بات سن کر کانگریس کے امیدوار کو ووٹ کیا ہے۔ ایسا اس لیے کیوں کہ بی جے پی حکومت آئین بدلنے کی بات کرتی ہے۔ جب آئین بدل جائے گا تو ہمیں کیا ملے گا!

Published: undefined

اسی طرح حسن پور کے کھاگی اور تیاگی  برادری کے لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی صرف انہیں ووٹ کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ ترقی، تعلیم بے روزگاری کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ جویا کے کچھ حلقوں میں بھی بی ایس پی اور بی جے پی کو اندرونی مخالفت کا سامانا کرنا پڑا، لیکن مایاوتی کی آمد سے اتنا ضرور ہوا کہ جو ایس سی ووٹ کھسک کر بی جے پی میں جا رہا تھا، وہ کسی حد تک یکجہت ہو کر بی ایس پی امیدوار کے حق میں چلا گیا۔ بی ایس پی امیدوار ڈاکٹر مجاہد حسین نے جی توڑ محنت بھی کی۔ ان کی ٹیم کے سینئر لیڈران نوید ایاز، فرحان خان، ڈاکٹر ظفرمحمود عباسی، عرفان سیفی، ضلع صدر سوم پال سنگھ، رام اوتار سنگھ وغیرہ نے بھی مشقت میں کمی نہیں کی، لیکن مجاہد حسین سے الیکشن کا منیجمنٹ ٹھیک سے نہیں ہو سکا۔

Published: undefined

دوسری طرف کانگریس، سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے کارکنان نے جس انداز میں اس الیکشن کو لڑا وہ قابل تعریف ہے۔ سماجوادی پارٹی کے صدر، رکن اسمبلی محبوب علی، سابق رکن قانون ساز کونسل پرویز محبوب علی، نوگاواں سادات رکن اسمبلی سمر پال سنگھ، اشفاق خان، خاص طور پر انڈیا اتحاد میں شامل عآپ کے روہیل کھنڈ صدر انجینئر محمد حیدر، صوبائی سکریٹری محمد عامر، ضلع صدر روپ چند چوہان نے بھی گھر گھر جا کر اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگے جس کا اثر خاطر خواہ دیکھنے کو ملا ہے۔

Published: undefined

امروہہ لوک سبھا سیٹ پر کھڑے درجن بھر امیدواروں میں سے تین امیدوار تو ڈمی تھے۔ اب سبھی کی قسمت ای وی ایم میں قید ہو گئی ہے۔ اس مرتبہ امروہہ لوک سبھا سیٹ کے پانچوں اسمبلی حلقوں میں 17 لکھ 16 ہزار 646 ووٹرس تھے جن میں سے 11 لاکھ 8 ہزار 652 ووٹرس نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جو کہ 64.58 فیصد ہوتا ہے۔ امروہہ سے رکن پارلیمنٹ کون منتخب ہوگا، اس کا فیصلہ تو ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن بی جے پی خیمے کی مایوسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انڈیا اتحاد کے امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے۔ حالانکہ بی ایس پی کے امیدوار کو کمزور سمجھنا بھی سیاسی بھول ہوگی، جس نے اپنے روایتی ووٹ کو اپنی طرف سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں کسی حد تک پارٹی کامیاب بھی رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined