سماج

چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ

ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔

چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ
چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ 

حضرت عمر ابنِ خطاب کا دورِ خلافت ہے۔ وہ مدینے میں اپنے گھر کے باہر ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، ''اے لوگو میری بات دھیان سے سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مجمع میں سے ایک آواز آئی کہ ہم نہ تمہاری بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ یہ آواز حضرت سلمان فارسی کی تھی۔

Published: undefined

ایک سناٹا چھا گیا۔ خلیفہ عمر نے پوچھا، ''اے سلمان مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی؟‘‘ سلمان فارسی نے کہا یمن سے چادروں کا جو تحفہ آیا وہ سب میں برابر تقسیم ہوا۔ تمہارے تن پر دو چادریں کیسی؟ خلیفہ عمر نےسبب بتایا کہ میں نے اپنے کپڑے دھو کے ڈالے ہوئے تھے اور ایک چادر تن کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا میں نے یہاں آنے کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں آنے والی چادر اس سے مانگ لی ۔

Published: undefined

خلیفہ عمر کو اس کا بھی پورا ادراک تھا کہ وہ جس منصب پر ہیں، اس کے سبب لوگ ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ زندگی پر بھی کوئی بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ رعیت کو جب کسی فعل سے منع کرتے تو پھر گھر والوں کو جمع کر کے تاکید کرتے کہ لوگوں کی تمہارے افعال پر ایسے نگاہ ہے جیسے پرندہ گوشت کو دیکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے میں نے عام آدمی کو روکا ہے تو پھر تمہیں مجھ سے تعلق کی بنا پر دوگنی سزا ملے گی۔

Published: undefined

مجھے یہ قصہ یوں بیان کرنا پڑا ہے کہ اس ملک کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں کا ہر حکمران خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا خواب دکھاتا ہے اور اس دور کے قصے سن کے ہر جنرل، جج ، بیوروکریٹ اور نیتا کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔

Published: undefined

مجھے یہ قصہ یوں بھی یاد آیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر سرکاری توشہ خانے سے تحائف اونے پونے خرید کے بازار میں بیچنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنا پڑے۔ ان وارنٹس کی تعمیل کی کوشش کے دوران جو سرپھٹول ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے گذشتہ بیس برس کے دوران توشہ خانے میں آنے جانے والی اشیا کی فہرست عام کر دی۔

Published: undefined

فہرست کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر حکمران اور ان کے اہلِ خانہ نے دل کھول کے ”توشہ نوشی‘‘ کی۔ صدور اور وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف ۔ان کے اہلِ خانہ اور ان سے نتھی افسروں نے بھی دو سو ساٹھ ملین روپے کے تحائف صرف ستاون ملین روپے کے عوض خرید لیے۔ یعنی اصل قیمت کا محض پندرہ سے بیس فیصد دے کر گھڑیاں، زیورات، نوادرات وغیرہ اڑس لیے گئے۔

Published: undefined

پرویز مشرف سے عارف علوی تک اور شوکت عزیز سے شاہد خاقان عباسی تک کسی صدر یا وزیرِ اعظم یا ان کے کنبے نے نہیں سوچا کہ ہم اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ توشہ خانے سے استفادے کی کیا ضرورت ہے۔

Published: undefined

اس عرصے میں چار سابق حکمران توشہ خانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اشیا اونے پونے خریدنے کے سلسلے میں بدعنوانی کے الزامات میں ماخوذ ہو چکے ہیں ۔ان میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ کسی حکمران یا افسر کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ توشہ خانہ سے مفت کے داموں اشیا خرید کے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو یہ پیسے دان کر دے۔

Published: undefined

پاکستان میں کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس ملک میں ستر فیصد کارکنوں کی اوسط ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل چار رکنی خاندان کا گھر اگر ذاتی نہیں ہے تو کھانے پینے، کپڑے لتے، بیماری، خوشی غمی اور تعلیمی فیس کے لیے ہی اس وقت کم از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں اور اتنے پیسوں میں بھی دو وقت کی روٹی، بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے ۔لاکھوں پنشنرز اس وقت آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گذارہ کر رہے ہیں اور ہزاروں تو پنشن کا منہ دیکھے بغیر ہی چل بسے۔

Published: undefined

لیکن اسی پاکستان میں ایسے مقتتدر لوگ بھی ہیں جن کی ماہانہ پنشن دس لاکھ روپے یا زائد بتائی جاتی ہے۔ انہیں سرکار کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول، یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک مخصوص رقم اور سیکورٹی گارڈز فراہم ہوتے ہیں۔

Published: undefined

اگر یہ جلیل القدر ہستیاں ان میں سے ایک بھی رعائیت نہ لیں تب بھی وہ اپنے طور پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے یہ سوچ درکار ہے کہ یہ سب الللے تلللے ملک کی ننانوے فیصد آبادی پر بلاواسطہ ٹیکسوں، اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی اور بیرونی قرضوں سے پورے ہوتے ہیں۔

Published: undefined

حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات میں کٹوتی کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات سے دو سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ آج ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وزراء اور بابووں سے محض نصف اضافی گاڑیاں ہی واپس لے سکی ہے ۔ یہ حضرات سب کے سب اس ملک میں مساوات اور ہر شہری کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کے خواب فروش ہیں۔

Published: undefined

گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے توشہ خانہ کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جو اہلِ اقتدار، جج، جنرل اور بااثر افراد توشہ خانہ سے فیضیاب ہوئے ان سب کی فہرست مرتب کر کے ان سے ان تحائف کی پوری قیمت وصول کی جائے۔

Published: undefined

میں یہ حکم پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ایک وزیرِ اعظم تھے محمد خان جونیجو جنہوں نے جنرلوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک وزیرِ اعظم تھے نواز شریف جنہوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ لاگو کر کے دیکھ لیا۔ اور ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔ اور ایک وزیرِ اعظم ہیں شہباز شریف جنہوں نے سادگی اپنانے کا نعرہ لگا کے توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی، اس میں کوئی جج اور جرنیل شامل نہیں۔

Published: undefined

اور ایک تھے ہمارے محمد علی جناح۔ جنہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے عقب میں واقع کیفے گرینڈ والوں کو آرڈر دیا کہ وہ بڑی ڈبل روٹی نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ ناشتہ کرنے والا صرف میں یا میری بہن فاطمہ ہے۔ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں تاکہ ریاست کا پیسہ ضائع نہ ہو۔چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ آج بھی کیفے گرینڈ والوں نے سنبھال کے رکھا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined