نائجریا میں دو نوجوان کو شرعی قوانین کے تحت سزائے موت سنائی گئی تو معاشرہ دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ ایک ہیں گلوکار یحیٰ امینو شریف جنہیں سزائے موت سنائی گئی اور دوسرے لادین مبارک بالا جو اس وقت زیرحراست ہیں۔ ان دونوں افراد کو شرعی قوانین کے تحت مقدمے کا سامنا ہے اور وجہ، سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر لگنے والا توہین مذہب کا الزام ہے۔ سوال یہ ہے کہ نائجیریا میں شریعہ قوانین کتنے فعال ہیں؟
Published: undefined
یحیٰ امینو شریف کو پیر کے روز نائجیریا کی ایک شرعی عدالت نے ایک گیت میں پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز اظہاریے کے استعمال پر سزائے موت سنائی۔
Published: undefined
شریف نے مارچ میں ایک گیت واٹس ایپ گروپس میں شیئر کیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف توہین مذہب الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے اور مشتعل مظاہرین نے ان کے اہل خانہ کا گھر نذر آتش کر دیا تھا۔ شریف توہین مذہب کے الزام کے تحت سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Published: undefined
اس عدالتی فیصلے نے عالمی شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔ اس سے چار برس قبل حکام نے قریب ایسے ہی ایک معاملے میں ایک اور شخص کو بھی سزائے موت سنائی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
نائجیریا کے شمال اور شمال مشرق میں واقع بارہ مسلم اکثریتی ریاستوں میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ ان ریاستوں میں توہین مذہب کے لیے سزائے موت کا قانون رائج ہے، تاہم اس پر عمل درآمد نہایت کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کے ظہرالدین عمر کے مطابق، ’’یہ ایک غیر عمومی واقعہ ہے۔ شمالی نائجیریا میں شرعی عدالتوں کا دوبارہ قیام سن دو ہزار ایک میں عمل میں آیا تھا اور تب سے اب تک انہوں (عدالتوں) نے ایسے مقدمات میں صرف دو افراد کو سزائے موت دی ہے۔‘‘
Published: undefined
وہ مزید کہتے ہیں، ’’توہین مذہب کے جرم میں ملنے والی سزا کی توثیق ریاستی گورنر کو کرنا ہوتی ہے۔‘‘ عمر نے بتایا کہ ماضی میں گورنرز نے ایسی کسی سزا کی کبھی توثیق نہیں کی ہے، تاہم اس انداز کے معاملات میں لوگ قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اس سزا پر نائجیریا کے دیگر حصوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ دارالحکومت ابوجا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست تنقید کی۔
Published: undefined
نائجیریا کی وفاقی حکومت کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ متنازعہ امور پر رائے زنی سے دور رہتی ہے۔ صدر محمدو بخاری بھی ایسے معاملات پر رائے نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے جب سن دو ہزار سولہ میں ایک نوجوان کو شمالی نائجیریا میں توہین مذہب کے معاملے پر سزائے موت سنائی گئی، تو وفاقی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر نہ کوئی بات کی گئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کیا گیا۔
Published: undefined
بلکہ بخاری کے ذاتی معاون بشیر احمد کا توہین مذہب پر سزائے موت سنائے جانے کے بعد کا وہ ٹوئٹ اب ایک بار پھر ری ٹوئٹ کیا گیا، جس میں بشیر احمد نے کہا تھا، ’’میں خاموشی کا ناٹک نہیں کر سکتا اور نہ رہ سکتا ہوں۔ میں سزائے موت کا حامی ہوں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکنان اس وقت زیرحراست لادین مبارک بالا کی رہائی کے مطالبات کر رہے ہیں۔ بالا کو کادونا ریاست میں رواں برس مئی میں حراست میں لیا گیا تھا اور پھر کانو ریاست کی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ مسلم وکیلوں کے ایک گروپ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے فیس بک پر ایک پوسٹ میں پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے۔
Published: undefined
وزارت انصاف کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اس معاملے کی تصدیق کی ہے تاہم حکام نے مبارک بالا کی گرفتاری پر کوئی باقاعدہ تبصرہ نہیں کیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، ’’جرم اور مقدمے کی حساسیت کے باوجود حکام کو اختیار نہیں ہے کہ وہ بالا سے متعلق معلومات کو غیرقانونی طور پر چھپائیں۔‘‘
Published: undefined
بالا اور ان کی بیوی کا ایک نومولود بچہ ہے۔ بالا کی اہلیہ متعدد مرتبہ اپیل کر چکی ہیں کہ انہیں ان کے شوہر کے بارے میں معلومات دی جائیں کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے، تاہم اب تک انہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
Published: undefined
Published: undefined
مسلم دنیا میں حالیہ کچھ عرصے میں توہین مذہب سے متعلق معاملات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس میں سرفہرست پاکستان ہے، جہاں ابھی چند روز قبل ہی ایک شخص کو پشاور کی ایکعدالت میں گولیمار کر قتل کر دیا گیا، جب کہ قتل کے اس مجرم پر وکیلوں کے ایک گروپ کی جانب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے اور پولیس اہلکاروں کی مسکراتے ہوئے مبینہ قاتل کے ساتھ تصاویر بنانے پر بھی سوشل میڈیا پر بحث ہوئی۔
Published: undefined
ابھی چند روز ہوئے سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے ایک مرتبہ پھر ایک تصویر وائرل کر دی، جس میں ایک پاکستانی اداکارہ اور اداکار ایک مسجد میں رقص کا ایک سین فلماتے نظر آرہے تھے۔ بعد میں ان میں سے ایک اداکار نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے معذرت کی۔ انڈونیشیا میں بھی ایک سابقہ گورنر کو توہین مذہب ہی کے معاملے پر عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم