سماج

بلوچستان کا پراسرار ’غاروں کا شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں غاروں کی پر اسرار بستی ایک عرصے سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ شہر روغاں یا گوندرانی کی غاروں کے نام سے اس بستی کے متعلق مقامی افراد میں کئی ما فوق الفطرت کہانیاں مشہور ہیں۔

بلوچستان کا پراسرار ’شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں
بلوچستان کا پراسرار ’شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں 

غاروں کا یہ پر اسرار شہر ایران کے تاریخی شہر کندوان اور کپا دوکیا (ترکی ) سے مشابہہ ہے مگر ان دونوں شہروں کے بر عکس یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے اور غاروں کے اندر بھی چمگادڑوں کے بسیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ یہ کوئٹہ سے چھ سو دو کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ بلند پہاڑوں میں گری یہ بستی کسی فلم کا منظر جیسی ہے۔

Published: undefined

شہر روغاں تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

بلند پہاڑوں میں گھری یہ بستی کسی فلم کا منظر جیسی ہے۔ جبکہ کراچی سے یہ فاصلہ 218 کلومیٹر ہے۔ دریائے کرد کے ساتھ ساتھ تین میل کا سفر اور کچھ راستہ پیدل طے کر کے با آسانی گوندرانی کی غاروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ راستے میں سب سے پہلے مائی گوندرانی کا مزار آتا ہے انہی کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام "گوندرانی " رکھا گیا ہے۔

Published: undefined

لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ علاقے کے بزرگ افراد مائی گوندرانی کے متعلق بہت سی پر اسرار کہانیاں سناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دور میں ان غاروں میں بھوت پریت اور شیطانی قوتوں کا بسیرا تھا۔ مائی گوندرانی نے ان قوتوں سے لڑ کر علاقے کو ان شیطانی قوتوں سے آزاد کروایا۔ اسے لئے آج بھی بڑی تعداد میں عقیدت مند ان کے مزار پر آتے ہیں۔

Published: undefined

گوندرانی کے غاروں کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟

اگرچہ بلوچستان میں مکران کے ساحل سے سبی اور اس سے آگے ژوب تک تقریبا تمام علاقے تاریخی اہمیت کا حامل ہے مگر ان پر ماہرین آثار قدیمہ نے بہت ہی کم تحقیق کی ہے۔ یہ تاریخی جگہ برٹش انڈین نیوی کے کمانڈر ٹی جی کارلس نے سن 1883 میں دریافت کی۔ مگر کارلس نے بھی محض سرسری معلومات فراہم کیں۔

Published: undefined

اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے محقق وحید رزاق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان غاروں کی تاریخ پر اب تک کوئی بھی تحقیق نہیں کی گئی بلکہ لسبیلہ کے پورے علاقے میں انتہائی نادر آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں کیونکہ کسی دور میں یہ علاقہ وسط ایشیاء کے اہم تجارتی راستوں میں شمار کیا جاتا تھا جو آگے سونمیانی کی بندر گاہ پر ختم ہوتا تھا۔ رزاق کہتے ہیں کہ تحقیق نہ ہونے کے باعث وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ غار کتنے قدیم ہیں۔

Published: undefined

غاروں کی خصوصیات کیا ہیں؟

پہلی دفعہ جب سیاح اس جگہ کا رخ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک مکمل آبادی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں مگر یہ پورا علاقہ آبادی نہ ہونے کے باعث انتہائی سنسان اور پر اسرار ہے۔ غاروں کے اندر تقریبا 51 مربع فٹ پر کمرے بنائے گئے جن کے باقاعدہ دروازے تھے اور ساتھ بر آمدوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ کمروں کے اندر بھی پارٹیشن ہیں جو غالبا کچن یا باتھ روم کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔

Published: undefined

بہت سے غار سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو بڑے خاندانوں کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں۔ جن چٹانوں میں یہ غار بنائے گئے ہیں ارضیاتی ماہرین کے مطابق وہ گارے نما مٹی، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ مگر ان پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تاریخی اہمیت کا حامل یہ پورا علاقہ زبوں حالی کا شکار ہے، یہاں تک کہ مقام اور راستے کی نشاندہی کے لئے کوئی بورڈ تک نہیں لگایا گیا نہ ہی سیاحوں کی رہائش کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔

Published: undefined

غاروں کے اندر بنے کمرے انتہائی خراب حالت میں ہیں ۔اگر ان کی مرمت کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کی مناسب سہولیات فراہم کر دی جائیں تو یہ علاقہ بین الااقوامی شہرت کا حامل بن سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined