غاروں کا یہ پر اسرار شہر ایران کے تاریخی شہر کندوان اور کپا دوکیا (ترکی ) سے مشابہہ ہے مگر ان دونوں شہروں کے بر عکس یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے اور غاروں کے اندر بھی چمگادڑوں کے بسیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ یہ کوئٹہ سے چھ سو دو کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ بلند پہاڑوں میں گری یہ بستی کسی فلم کا منظر جیسی ہے۔
Published: undefined
بلند پہاڑوں میں گھری یہ بستی کسی فلم کا منظر جیسی ہے۔ جبکہ کراچی سے یہ فاصلہ 218 کلومیٹر ہے۔ دریائے کرد کے ساتھ ساتھ تین میل کا سفر اور کچھ راستہ پیدل طے کر کے با آسانی گوندرانی کی غاروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ راستے میں سب سے پہلے مائی گوندرانی کا مزار آتا ہے انہی کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام "گوندرانی " رکھا گیا ہے۔
Published: undefined
لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ علاقے کے بزرگ افراد مائی گوندرانی کے متعلق بہت سی پر اسرار کہانیاں سناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دور میں ان غاروں میں بھوت پریت اور شیطانی قوتوں کا بسیرا تھا۔ مائی گوندرانی نے ان قوتوں سے لڑ کر علاقے کو ان شیطانی قوتوں سے آزاد کروایا۔ اسے لئے آج بھی بڑی تعداد میں عقیدت مند ان کے مزار پر آتے ہیں۔
Published: undefined
اگرچہ بلوچستان میں مکران کے ساحل سے سبی اور اس سے آگے ژوب تک تقریبا تمام علاقے تاریخی اہمیت کا حامل ہے مگر ان پر ماہرین آثار قدیمہ نے بہت ہی کم تحقیق کی ہے۔ یہ تاریخی جگہ برٹش انڈین نیوی کے کمانڈر ٹی جی کارلس نے سن 1883 میں دریافت کی۔ مگر کارلس نے بھی محض سرسری معلومات فراہم کیں۔
Published: undefined
اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے محقق وحید رزاق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان غاروں کی تاریخ پر اب تک کوئی بھی تحقیق نہیں کی گئی بلکہ لسبیلہ کے پورے علاقے میں انتہائی نادر آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں کیونکہ کسی دور میں یہ علاقہ وسط ایشیاء کے اہم تجارتی راستوں میں شمار کیا جاتا تھا جو آگے سونمیانی کی بندر گاہ پر ختم ہوتا تھا۔ رزاق کہتے ہیں کہ تحقیق نہ ہونے کے باعث وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ غار کتنے قدیم ہیں۔
Published: undefined
پہلی دفعہ جب سیاح اس جگہ کا رخ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک مکمل آبادی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں مگر یہ پورا علاقہ آبادی نہ ہونے کے باعث انتہائی سنسان اور پر اسرار ہے۔ غاروں کے اندر تقریبا 51 مربع فٹ پر کمرے بنائے گئے جن کے باقاعدہ دروازے تھے اور ساتھ بر آمدوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ کمروں کے اندر بھی پارٹیشن ہیں جو غالبا کچن یا باتھ روم کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔
Published: undefined
بہت سے غار سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو بڑے خاندانوں کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں۔ جن چٹانوں میں یہ غار بنائے گئے ہیں ارضیاتی ماہرین کے مطابق وہ گارے نما مٹی، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ مگر ان پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تاریخی اہمیت کا حامل یہ پورا علاقہ زبوں حالی کا شکار ہے، یہاں تک کہ مقام اور راستے کی نشاندہی کے لئے کوئی بورڈ تک نہیں لگایا گیا نہ ہی سیاحوں کی رہائش کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔
Published: undefined
غاروں کے اندر بنے کمرے انتہائی خراب حالت میں ہیں ۔اگر ان کی مرمت کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کی مناسب سہولیات فراہم کر دی جائیں تو یہ علاقہ بین الااقوامی شہرت کا حامل بن سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined